کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 186
مطلب چہارم … حدیث مقطوع ۱۔ حدیثِ مقطوع کی تعریف: الف: …لغوی تعریف: لفظ مقطوع ’’قَطَعَ‘‘ فعل سے اسمِ مفعول کا صیغہ ہے( جس کے معنی ہیں کٹا ہوا، جدا کیا ہوا) اور یہ ’’وَصَلَ‘‘ کی ضد ہے (جس کے معنی ہیں ملانا اور جوڑنا) ب: …اصطلاحی تعریف: (محدثین کی اصطلاح میں ) یہ وہ قول و فعل ہے جس کی کسی تابعی یا اس کے نیچے کے راوی کی طرف نسبت ہو۔[1] ۲۔ تعریف کی شرح: یعنی یہ وہ قول و فعل ہے جس کی تابعی یا تبع تابعی کی طرف نسبت یا اسناد کی جائے البتہ (یہاں یہ بات مدِّنظر رہے کہ) ’’مقطوع‘‘ اور ہے اور ’’منقطع‘‘ اور کیوں کہ ’’مقطوع‘‘ متن کی صفت ہے جب کہ ’’منقطع‘‘ اسناد کی صفت ہے۔[2]یعنی ’’حدیث مقطوع‘‘ تابعی یا اس سے نیچے کے راوی کا کلام ہوتا ہے اور کبھی (حدیث مقطوع کی) سند مذکورہ تابعی تک بھی متصل ہوتی ہے۔ اور اس بنا پر یہ معلوم ہوا کہ منقطع وہ حدیث ہے جس کی سند غیر متّصل ہو اور اس کا حدیث کے متن سے کوئی تعلق نہ ہو(جب کہ مقطوع وہ ہے جو کسی تابعی یا اس کے نیچے کے راوی کا کلام ہوتا ہے خواہ اس کی سند متّصل یا غیر متّصل) ۳۔ حدیث مقطوع کی مثالیں : (چوں کہ یہ حدیث کسی تابعی یا تبع تابعی کا قول یا فعل ہوتا ہے اس لیے اصولی طور پر اس کی قسمیں بھی دو بنیں گی (۱) مقطوع قولی اور یہ وہ حدیث ہے جس میں کسی تابعی یا تبع تابعی کا قول مذکور ہو (۲) مقطوع فعلی اور یہ وہ حدیث ہے جس میں کسی تابعی یا تبع تابعی کا کوئی فعل مذکور ہو۔ اب ذیل میں ان دونوں قسموں کی مثالیں ملاحظہ کیجیے!) [3] الف: …’’مقطوعِ قولی‘‘ کی مثال: اس کی مثال حسن بصری کا بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کی بابت یہ قول ہے، ’’صَلِّ وَعَلَیْہِ بِدْعَتُہٗ ‘‘[4] ’’تم (اس بدعتی کے پیچھے) نماز پڑھ لو اس کی بدعت کا وبال اس کے سر پڑے گا۔‘‘
[1] دیکھیں ’’النخبۃ ۵۹‘‘ اور تابعی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے کسی صحابی سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملاقات کی ہو اور پھر اپنے اسلام پر ہی مر گیا ہو (طحّان) یاد رہے کہ یہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور خطیب کی اصطلاح ہے کہ حدیثِ مقطوع غیر تابعی کی طرف منسوب قول و فعل کو بھی کہتے ہیں مگر ابن صلاح نے اس کی تردید کی ہے اور اس کو نووی اور سخاوی وغیرہ نے اختیار کیا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۴۹(حاشیہ صفحہ ہذا) ملخصاً) [2] یعنی قطع ’’متن ‘‘ میں اور انقطاع ’’سند ‘‘ میں پایا جاتا ہے۔ [3] اگرچہ مؤلف موصوف نے ’’مقطوع‘‘ کی قسمیں بیان نہیں کیں بلکہ ان کی صرف امثلہ پیش کرنے پر اکتفاء کیا ہے مگر امثلہ کے ضمن میں ان کی اقسام بھی مستفاد ہوتی ہیں کما ھو ظاہر۔ [4] رواہ البخاری۔ کتاب الاذان۔ باب امامۃ المفتون والمبتدع ۲/۱۸۸ (طحّان)