کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 184
کیا گیا۔‘‘ [1] اور جیسے ابو قلابہ کا حضرتِ انس سے مروی یہ قول، ’’یہ بات سنت میں سے ہے کہ جب آدمی شادی شدہ پر کنواری لڑکی بیاہ کر لائے تو اس کے پاس سات راتوں تک ٹھہرے‘‘[2] (یعنی پہلے ایک بیوی ہو جس سے ہم بستری کر چکا ہو پھر ایک کنواری لڑکی سے دوسری شادی کرے تو مسلسل سات راتوں تک اس کے پاس قیام کرے پھر بعد میں ان کے دونوں کے درمیان باریاں مقرر کرے)۔ ھ: …یا حدیث کا راوی صحابی کا ذکر آنے پر ان چار کلمات میں سے ایک کلمہ کہے، (۱) یَرْفَعُہُ‘‘ (۲) ’’یَنْمِیْہِ (۳) یَبْلُغُ بہ (۴) رِوَاَیۃً۔ جیسے اعرج کی حدیث جس کی اسناد یہ ہے: ’’الاعرج عن ابی ھریرۃ رِوَاَیۃً‘‘ ’’لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تُقَاتِلُوْا قَوْمًا صِغَارَ الْاَعْیُنِ‘‘[3]اعرج حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایۃً نقل کرتے ہیں کہ، ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم ایک چھوٹی آنکھوں والی قوم کے ساتھ قتال نہ کرلو۔‘‘ و: …یا صحابی ایسی تفسیر بیان کرے جس کا تعلق سببِ نزول سے ہو، جیسے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ قول، ’’یہود کہا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی بیوی کی شرمگاہ میں پیچھے کی طرف سے آیا تو اس کا بچہ بھینگا پیدا ہو گا۔‘‘ اس پر رب تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ……‘‘[4] (البقرۃ ۲۲۳) ’’تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں ۔‘‘ (غرض ان سب صورتوں میں ایسی حدیث اگر صورۃً موقوف بھی ہوگی تو بھی حکماً مرفوع کہلائے گی) ۷۔ کیا حدیث موقوف قابل استدلال و احتجاج ہوتی ہے؟: آپ جان چکے ہیں کہ حدیث موقوف کبھی صحیح ہوتی ہے تو کبھی حسن اور کبھی ضعیف۔ لیکن جب تک اس کا صحیح ہونا ثابت نہ ہو آیا اس پر عمل کرنا واجب ہے یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث موقوف میں اصل اس پر وجوبِ عمل کا نہ ہونا ہے کیوں کہ (دراصل) یہ صحابہ کے اقوال و افعال ہیں ، لیکن اگر یہ ثابت ہو جائیں تو بعض ضعیف احادیث کی تقویت کا سبب بن جاتے ہیں جیسا کہ مرسل کے بیان میں گزر چکا ہے۔ کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنت پر عامل تھے۔ یہ تفصیل تو اس وقت ہے جب حدیث موقوف ’’مرفوع‘‘ کے حکم میں نہ ہو۔ البتہ جب حدیث موقوف ایسی ہو جو حکما مرفوع ہو تو وہ حجت اور دلیل ہے اور اس پر حدیث مرفوع کی طرح عمل کرنا واجب ہے۔
[1] البخاری ۔ کتاب الجنائز حدیث رقم ۱۲۷۸، ومسلم۔ کتاب الجنائز حدیث رقم ۳۵ (طحّان) [2] البخاری۔ کتاب النکاح۔ حدیث رقم ۔ ۵۲۱۴ (طحّان) [3] البخاری ۔ کتاب الجہاد۔ حدیث رقم ۲۹۲۹ (طحّان) [4] رواہ مسلم ۔ کتاب النکاح۔ حدیث رقم ۱۱۷ بمعناہ (طحّان)