کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 182
عَلَیَّ‘‘ ’’میں نے ایک صحابی کے سامنے ایسا ایسا کیا مگر انہوں نے میرے اس فعل پر انکار نہ کیا۔‘‘ ۴۔ لفظ ’’موقوف‘‘ کا ایک دوسرا استعمال (یا دوسرا مصداق): لفظِ موقوف غیر صحابی سے منقول امور پر بھی بولا جاتا ہے۔ مگر یہ (بات علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ) مقیّد[1]ہے۔مثلاً یوں کہا جائے: ’’ھٰذَا حَدِیْثٌ وَقَفَہٗ فُلَانٌ عَلَی الزُّھْرِیِّ اَوْ عَلَی عَطَائٍ‘‘ ’’اس حدیث کو فلاں نے زہری یا عطا پر موقوف کرکے روایت کیا ہے۔‘‘[2] ۵۔(حدیث موقوف کی بابت) فقہاء خراسان کی (مخصوص) اصطلاح: (درج ذیل تفصیل سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ) فقہاء خراسان (نے مرفوع اور موقوف میں فرق بیان کرنے کے لیے ایک نئی اصطلاح بنائی ہے وہ یہ کہ وہ) الف: …حدیث مرفوع کو:خبر ب: …اور حدیث موقوف کو:اثر کہہ کر پکارتے ہیں حالاں کہ (جمہور) محدثین ان دونوں قسم کو (اس تخصیص کے ساتھ الگ الگ قسم شمار نہیں کرتے، بلکہ ہر ایک کو) ’’اثر‘‘ کہتے ہیں (جیسا کہ ’’تعریفاتِ اوّلیّہ‘‘ میں یہ بات گزر چکی ہے کہ محدثین دونوں کو اثر کہتے ہیں ) کیوں کہ لفظ ’’اثر‘‘ ’’اَثَرْتُ الشَّیْئِ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’’روایت کرنا اور بیان کرنا‘‘[3] ہیں ۔ ( لہٰذا روایت ہونے کے اعتبار موقوف اور مرفوع دونوں اثر ہیں )۔ ۶۔ حدیثِ موقوف کی کچھ ایسی فروعی صورتیں جو حکم کے اعتبار سے مرفوع ہیں : احادیث کی کچھ صورتیں ایسی ہیں جو بظاہر اپنے الفاظ کے ساتھ اور شکل کے اعتبار سے تو موقوف لگتی ہیں مگر ایک ماہر نقاد محدّث جب انتہائی باریک بینی سے اس کی حقیقت کا جائزہ لیتا ہے تو وہ اسے حدیث مرفوع کے معنی میں پاتا ہے۔[4]اسی لیے علماء محدثین نے ایسی (موقوف) حدیث کو ’’مرفوعِ حکمی‘‘ کے نام سے پکارا ہے۔ یعنی احادیث کی یہ صورتیں لفظوں میں تو موقوف ہیں مگر حکم کے اعتبار سے مرفوع کا درجہ رکھتی ہیں ۔ مرفوعِ حکمی کی چند صورتیں : الف: …مثلاً ایک صحابی جو اہل کتاب سے روایات لینے میں معروف نہ ہو، وہ ایک ایسی بات کہے جس میں نہ تو
[1] آگے مذکورہ مثال سے لفظ مقیّد کی تشریح یہ سمجھ میں آتی ہے کہ غیر صحابی میں سے ہر ایک پر حدیث کو موقوف کرنا درست نہیں بلکہ اس کا تابعی ہونا شرط ہے یا اس کے نام کی صراحت ہو اور وہ ثقہ اور معتمد راوی ہو۔ واللہ اعلم۔ [2] زہری اور عطا دونوں اجل اور کبار تابعین میں سے ہیں (طحّان) [3] کما فی ’’القاموس الوحید، ص: ۱۰۸ کالم رقم ۳ ’’اَثَرَ الحدیث‘‘ بات نقل کرنا، روایت کرنا۔ [4] یعنی بظاہر لفظوں میں وہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو مگر کسی وجہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی نسبت رکھتی ہوتی ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۴۴ بتصرفٍ)