کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 178
سے نقل ہو کر پہنچی ہو اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ تک اپنی اسناد کو بیان بھی فرما رہے ہوں ۔ [1] ۲۔ حدیث قدسی اور قرآنِ کریم میں فرق : علماء نے حدیث قدسی اور قرآن کریم میں متعدد فروق بیان کیے ہیں جن میں چند مشہور فروق یہ ہیں : الف: …قرآن کے لفظ اور معنی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں جب کہ حدیث قدسی کے معنی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس کے لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں ۔ ب: …قرآن کریم کے الفاظ کا پڑھنا (اور پڑھانا دونوں ) عبادت ہیں جب کہ حدیث قدسی کی تلاوت عبادت نہیں ( گو اس کے پڑھنے میں ثواب ضرور ہے۔ اور کارِ ثواب کا عبادت ہونا لازمی نہیں )۔ ج: …قرآن کریم (کے الفاظ) کے ثبوت کے لیے تواتر شرط ہے جب کہ حدیث قدسی کے ثبوت کے لیے تواتر شرط نہیں ۔ (علماء نے ان کے علاوہ بھی چند اہم فروق کو بیان کیا ہے [2] جنہیں متعلقہ مبحث میں دیکھا جاسکتا ہے) ۳۔ احادیث قدسیہ کی تعداد: بہ نسبت دوسری احادیثِ نبویہ کے احادیث قدسیہ کی تعداد اس قدر زیادہ نہیں ۔ ان کی تعداد تقریباً دو سو ہے۔ [3] ۴۔ حدیث قدسی کی مثال: اس کی مثال مسلم شریف کی وہ روایت ہے جو حضرتِ ابوزر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ سے بیان کرتے ہیں کہ رب تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے اور اسے تم لوگوں کے درمیان (بھی) حرام قرار دیا ہے پس تم ایک دوسرے پر ستم مت ڈھاؤ!…… ‘‘[4] ۵۔ حدیث قدسی روایت کرنے کے صیغے: حدیث قدسی روایت کرنے والا ان دو تعبیروں میں سے جس کو چاہے اختیار کرکے روایت کر سکتا ہے، جو یہ ہیں :
[1] الرسالۃ المستطرفۃ ص۸۱، قواعد التحدیث ص۶۵ (طحّان) [2] جیسے مثلاً قرآن کریم معجزہ ہے جب کہ حدیث قدسی کا یہ معیار نہیں ، قرآن کا منکر کافر ہے حدیثِ قدسی کا نہیں جب کہ وہ متواتر نہ ہو، قرآن کی نماز میں تلاوت کی جاتی ہے جب کہ حدیثِ قدسی کی نماز میں تلاوت کی اجازت نہیں ، سارا قرآن حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے نازل ہوا، جب کہ حدیث قدسی کبھی تو حضرتِ جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے نازل ہوئی اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا الہام کر دیا گیا یا خواب وغیرہ دوسرے ذرائع وحی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی گئی۔ قرآن کے الفاظ حتمی ہیں جب کہ حدیثِ قدسی میں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الفاظ کے انتخاب کا اختیار ہوتا تھا۔ وغیرذلک(علوم الحدیث، ص: ۳۹۔۴۰بتصرفٍ) [3] جب کہ بعض حضرات نے ان کی تعداد ۸۶۳ تک بتلائی ہے اور ساتھ ہی یہ تصریح بھی کردی ہے کہ اگر جستجو کی جائے تو ان کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے (علوم الحدیث، ص: ۴۰) [4] رواہ مسلم ۔ کتاب البرو الصلۃ: ۴/۱۹۹۴ حدیث رقم ۵۵ بلفظہ (طحّان)