کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 174
۳۔ سَیِّئُ الْحِفْظ کی روایت کا حکم:
(چوں کہ ایسا راوی دو حال سے خالی نہیں اس لیے اس کی روایت کا حکم بھی حسبِ حال ہوگا۔ لہٰذا)
الف: …پہلی قسم کا راوی جس کا حافظہ شروع سے ہی خراب چلا آ رہا ہے اس کی روایت مردود ہوگی۔
ب: …رہ گیا ’’راویٔ مختَلَط‘‘ تو اس کی روایت کے حکم میں تفصیل ہے، جو یہ ہے:
۱۔ ایسے راوی کی وہ احادیث جو حافظہ میں اختلاط پیدا ہونے سے پہلے کی ہوں اور انہیں دوسری احادیث سے ممتاز بھی کیا جاسکتا ہو، وہ مقبول ہوں گی۔
۲۔ اور وہ روایات جو اختلاط کے بعد کے زمانہ کی ہوں وہ مردود ہوں گی۔
۳۔ اور وہ احادیث جن میں یہ امتیاز نہ ہو سکے کہ وہ اس راوی کے اختلاط لاحق ہونے سے پہلے کی ہیں یا بعد کی ہیں ، ان میں امتیاز حاصل ہونے تک ان میں توقف کیا جائے گا۔[1] (پھر امتیاز کے بعد یا تو وہ مقبول کے تحت داخل ہوں گی یا ’’مردود‘‘ شمار ہوں گی)۔
مشقی سوالات
مندرجہ ذیل سوالات کے جواب تحریر کیجیے۔
۱۔ کبھی لفظِ علت کا اطلاق اپنے غیر اصطلاحی معنی پر بھی ہوتا ہے۔کیسے؟
۲۔ علت کو کیسے تلاش کیا جا سکتا ہے اور اس کی پہچان کیسے ممکن ہے؟
۳۔ کیا علت سند کے ساتھ متن کو بھی مجروح کرتی ہے؟
۴۔ درج ذیل پر نوٹ لکھیں :
حدیث مقلوب،حدیث مضطرب
۵۔ اِدراجِ حدیث کی کتنی صورتیں ہیں ۔مثال سے واضح کریں ؟
۶۔ ادراج کے اسباب بیان کیجیے۔
۷۔ مقلوب، مدرج اور المزید فی متصل الاسانید میں کیا فرق ہے؟
۸۔ تصحیف کے ارتکاب سے راوی کی وثاقت پر کیا اثرات پڑتے ہیں ؟
۹۔ تصحیف اور تحریف میں کیا فرق ہے؟
۱۰۔ حدیث مجہول پر ایک مختصر نوٹ لکھیں ۔
[1] شاید مولف موصوف نے طوالت کے خوف سے اس باب کی مشہور تصنیفات اور امثلہ کو ذکر نہیں کیا بندہ عاجز مترجم بھی اسی بناء پر یہ تفصیل قلم انداز کرتا ہے۔ شائقین حضرات اصل مآخذ کی مراجعت کرلیں ۔
ؔاس موضوع پر عمدہ ترین کتاب ابو البرکات زین الدین ابن الکیال (۹۲۹ء) کی ’’الکواکب النیرات فی معرفۃ من الرواۃ الثقات‘‘ ہے۔ (ابوسفیان)