کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 172
(۹) بدعت [1]
۱۔ بدعت کی تعریف:
الف: …بدعت کی لغوی تعریف: لفظ بدعت ’’بَدَعَ‘‘ فعل کا مصدر ہے جس کا معنی نئی چیز پیدا کرنا ہے جیسے ’’اِبْتَدَعَ‘‘ کا بھی یہی معنی ہے (یعنی نئی چیز جاری کرنا اور ایجاد کرنا) کما فی القاموس المحیط۔
ب: …اصطلاحی تعریف: (علماء اور فقہاء کی اصطلاح میں ) بدعت دین کے کامل ہو جانے کے بعد اس میں کسی نئی بات کے نکالنے کو کہتے ہیں یا بدعت اس خواہشِ نفس اور عمل کو کہتے ہیں جو جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پا جانے کے بعد ایجاد کرلیا گیا ہو۔ [2]
۲۔ بدعت کی اقسام:
(علماء اور فقہاء نے) بدعت کی (بنیادی طور پر) دو قسمیں (بیان کی) ہیں :
الف: …بدعتِ مُکَفِّرَۃُ: یہ وہ بدعت ہے جس کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے جیسے ایسا اعتقاد بنالینا جو کفر کو مستلزم ہو۔
اس باب میں معتمد اور معتبر قول یہ ہے کہ اس بدعتی کی روایت مردود ہوتی ہے جو شرع شریف کے کسی ایسے امر کا انکار کرے جو متواتر ہو اور اس کا ضروریاتِ دین میں سے ہونا معلوم اور معروف ہو، یا وہ اس امرِ متواتر و ضروری کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو۔[3] (کہ ایسے شخص پر تکفیر کا حکم بھی جاری ہوگا اور اس کی روایت بھی مردود ہوگی) [4]
ب: بدعتِ مُفَسِّقَہ:
یعنی اس کے مرتکب کو فاسق (تو) کہا جائے (مگر کافر یا دائرئہ اسلام سے خارج نہ کہا جائے) اور یہ بدعتی وہ شخص ہوتا جس کی بدعت اپنی اصل کے اعتبار سے کفر کو مقتضی نہیں ہوتی۔ [5]
[1] یہ راوی میں طعن کا اسباب میں سے نواں سبب ہے (طحّان)
جو دراصل اسبابِ طعن متعلق بعدالت میں سے پانچواں سبب ہے۔
[2] خواہش نفس سے مراد جھوٹے اور باطل اعتقادات و نظریات ہیں اور اعمال سے مراد بطور عبادت و سنت کے ایجاد کردہ وہ افعال ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ کے ادوار کے بعد نکالا گیا ہو۔
[3] دیکھیں النخبۃ وشرحھا ص۵۲ (طحّان)
[4] علماء اور فقہاء نے اس بات کی تصریح کی ہے متواترات اور ضروریاتِ دین کا انکار کفر ہے۔
[5] گویا یہ ایسی بدعت ہوتی ہے جس کا اعتقاد کرنا یا اس پر عمل کرنا گمراہی کا سبب ہوتا ہے، اس کے تحت وہ سب امور داخل ہیں جنہیں خود سے دین کی حیثیت دے کر دین میں زبردستی شامل کی سعی نامشکور کی گئی ہو یا ان کی وجہ سے دین کے کسی حکم کے مرتبہ کو گھٹایا یا بڑھایا گیا ہو(علوم الحدیث، ص: ۲۰۱ بتصرفٍ)