کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 170
(۱) ’’مجہول الحال‘‘ کی تعریف: یہ اس راوی کو کہتے ہیں جس سے دو یا دو سے زیادہ لوگ روایت کرنے والے ہوں مگر (خود ایسا راوی ثقہ نہ ہو وہ یوں کہ) اس کی توثیق منقول نہ ہو۔ (۲) مجہول الحال کی روایت کا حکم: اس کی بابت صحیح قول یہ ہے کہ ایسے راوی کی حدیث مردود ہے جیسا کہ جمہور سے منقول ہے۔ (۳) کیا اس کی حدیث کا کوئی خاص نام ہے؟ ایسے راوی کی حدیث کا بھی کوئی خاص نام نہیں ۔ اسے ضعیف کی ایک نوع کہہ سکتے ہیں ۔ ج: (تیسری قسم) مُبْھَم: ہم مُبہم راوی کو مجہول کی ایک نوع بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اگرچہ حضرات محدثین نے ایسے راوی کو ایک خاص نام (مبہم) سے پکارا ہے لیکن اس کی حقیقت مجہول کی حقیقت سے ملتی جلتی ہے۔ (۱)مُبْہَم کی تعریف: یہ اس راوی کو کہتے ہیں جس کا نام حدیث (کی اسناد) میں صراحتہً ذکر نہ کیا گیا ہو۔ (۲) مُبْہَم کی روایت کا حکم: اس کی روایت غیر مقبول ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ یا تو خود اس سے روایت کرنے والا اس کے نام کی تصریح کردے یا کسی دوسرے طریق میں اس کے نام کے صراحتہً مذکور ہونے سے اس کا نام معلوم ہو جائے۔ اور اس کی روایت کے رد ہونے کا سبب اس کی ذات کی جہالت ہے کیوں کہ جس کا نام مبہم ہوگا، اس کی ذات اور شخصیّت مجہول ہوگی اور اس کی عدالت تو بدرجہء اولی مجہول ہوگی (کہ جس کی ذات معلوم نہیں اس کے احوال اور ضبط و عدالت کیوں کر معلوم ہوگی) جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس کی روایت غیر مقبول ہوگی۔ (۳) اگر راوی ’’مروی عنہ‘‘ کو تعدیل کے لفظوں کے ساتھ مبہم ذکر کرے تو کیا اس صورت میں اس کی روایت مقبول ہوگی؟ اور اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً اس مبہم راوی سے روایت کرنے والا یوں کہے، ’’اَخْبَرَنِی الثِّقَۃُ‘‘ ’’مجھے ایک ثقہ نے بیان کیا۔‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ زیادہ صحیح (یعنی اصح) قول کے مطابق ایسے مبہم راوی کی روایت بھی مقبول نہ ہوگی کیوں کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس سے روایت کرنے والے کے نزدیک تو یہ ثقہ ہوتا ہے مگر دوسروں کے نزدیک ثقہ نہیں ہوتا۔ (۴) کیا مبہم راوی کی حدیث کا کوئی خاص نام ہے؟ جی ہاں ! اس کی حدیث کا ایک خاص نام ہے اور وہ ’’مُبْہَم‘‘ ہے اور ’’حدیث مبہم‘‘ وہ حدیث کہلاتی ہے جس (کی