کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 166
الف: …مُصَحَّف: یہ حدیث کی وہ قسم ہے جس میں تبدیلی حروف کے نقطوں کے اعتبار سے ہو جب کہ خط اپنی صورت پر باقی ہو۔ [1]
ب:…مُحَرَّف: …یہ حدیث کی وہ قسم ہے جس میں تبدیلی حروف کی شکل کی اعتبار سے ہو جب کہ خط کی صورت باقی ہو۔[2]
۵۔ کیا تصحیف کے ارتکاب سے راوی کی وثاقت مجروح ہو جاتی ہے؟
(یہ بات علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ اس میں تفصیل ہے:)
الف:… اگر تو راوی سے تصحیف کا وقوع شاذ و نادر ہو تو اس سے اس کا ضبط مجروح نہیں ہوتا کیوں کہ خطا اور معمولی (اور قابلِ درگزر ) تصحیف سے کوئی انسان خالی نہیں ۔
ب: …البتہ جب راوی سے ایسا (بار بار اور) کثرت کے ساتھ ہو تو اس سے اس کا ضبط مجروح ہو جاتا ہے اور یہ اس کے ضبط کے کمزور ہونے کی دلیل بن جاتی ہے اور ایسا راوی (فن حدیث میں ) اس شان کا نہیں رہتا (جس کی روایات مقبول ہوں )
۶۔ کسی راوی سے کثرت کے ساتھ تصحیف کیوں کر ہوتی ہے؟
تصحیف میں جاپڑنے کا غالب سبب احادیث کو اساتذہ اور شیوخ سے حاصل کرنے کی بجائے ان کو کتابوں اور صحیفوں سے حاصل کرنا ہے (جیسا کہ تصحیف کی لغوی تحقیق کے حوالہ سے گزشتہ میں حاشیہ میں بیان ہوا) اس لیے حضرات ائمہ کرام نے ایسے شخص سے (جو کتابوں سے حدیث اخذ کرتا ہو) حدیث لینے سے خبردار کیا ہے اور (واشگاف لفظوں میں ) کہا ہے، ’’حدیث کو کسی ’’صَحَفی‘‘ سے (ہرگز) نہ لیا جائے‘‘ یعنی جو کتابوں سے حدیث لیتا ہو(اس سے نہ لیا جائے)۔
۷۔ تصحیف پر مشہور تصنیفات:
الف: …’’التصحیف‘‘ یہ امام دارقطنی رحمہ اللہ متوفی ۳۸۵ھ کی تالیف ہے۔
ب: … ’’اصلاح الخطاء المحدثین‘‘ یہ علامہ خطّابی رحمہ اللہ متوفی ۳۲۸ھ کا علمی جواہر پارہ ہے۔
[1] اس کو ’’مصحَّف النقط‘‘ بھی کہتے ہیں اور اس کی مثال گزشتہ میں گزر چکی ہے جیسے لفظ مُرَاجم کو مُزَاحم بنادینا کہ اس میں خط کی صورت (مراحم) تو باقی ہے مگر نقطوں کے مقامات بدل دیئے گئے ہیں ۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۸۷ بتصرفٍ کثیر)
[2] اس کو ’’مصحف الشکل‘‘ بھی کہتے ہیں کہ اس میں خط کے اپنی صورت پر باقی رہتے ہوئے حروف کی شکل بدل جاتی ہے۔ اور اس سے مراد حروف کی حرکات کا بدلنا ہے۔ وگرنہ حرف کی شکل بدلنے سے خط کی صورت کا بدلنا ناگزیر ہے۔ اس کی مثال حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا یہ لفظ ہے: ’’ یوم کُلَّابِ‘‘ جس کو تصحیف کر کے بعض نے’’یَوْمُ کِلَابٍ‘‘ پڑھ دیا ہے کہ دونوں صورتوں میں خط کی صورت باقی ہے۔ مگر حرکات بدلنے سے حروف کی صورت بدل گئی ہے کہ کُلَّاب کا معنی ایڑ ہے جب کہ کِلَابٌ یہ ’’کلب‘‘ کی جمع ہے۔ اب پہلی بات کا مطلب یہ ہے کہ وہ دن ایڑ لگانے یعنی گھڑ سواری کے جوہر دکھانے کا دن تھا جب کہ دوسری بات کا مطلب بہت سخیف ہے کہ وہ ’’کتوں کا دن‘‘ تھا۔ واللہ اعلم۔ (ہذا ما استفدت من علوم الحدیث للاسعدی) یاد رہے کہ اکثر حضرات نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس تقسیم و تفریق کو تسلیم نہیں کیا بلکہ مصحف اور محرف کو ہم معنی اور ایک قسم قرار دیا ہے۔ (دیکھیں : حوالہ بالا حاشیہ نمبر۱، بحوالہ حاشیہ نزہۃ النظر از محمد غیاث الصباغ، ص: ۹۲ … )