کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 165
اس کی مثال وہ حدیث ہے جو ’’عَاصِمٍ الْاَحْوَلِ‘‘ سے مروی ہے جس کو بعض لوگوں نے تصحیف کرکے ’’وَاصِلٍ الْاَحْدَبِ‘‘ کر دیا ہے۔ (اور اس اشتباہ کا سبب عاصم اور واصل کا ’’فَاعِل‘‘ کے وزن پر یعنی ایک وزن پر اور احول اور احدب کا ’’اَفْعَل‘‘ کے وزن پر ہونا ہے) (اب حدیث مصحف کی تیسری تقسیم اور اس کی آگے مزید قسموں کا حال سنیے!)۔ ج: …لفظ یا معنی کے اعتبار سے تقسیم: حدیث مصحف کی لفظ اور معنی کے اعتبار سے بھی دو قسمیں ہیں ، جو یہ ہیں : ۱۔ لفظوں میں تصحیف:… تصحیف کی یہی صورت اکثر پیش آتی ہے۔ گزشتہ مذکورہ مثالیں لفظی تصحیف کی بھی ہیں ۔ ۲۔ معنی میں تصحیف:… اس کی تفسیر یہ ہے کہ راویٔ مُصَحِّف (تصحیف کرنے والا) حدیث کے الفاظ (سے تو تعرض نہ کرے بلکہ ان) کو اپنے حال پر رہنے دے۔ مگر ان کا مطلب وہ بیان کرے جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ اس راوی نے اس لفظ کا مطلب کچھ اور سمجھا ہے (دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ راوی لفظ نہ بدلے مگر معنی بدل دے)۔ (اس کی نہایت دلچسپ مثال سمجھنے سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ ’’عَنزَۃ‘‘ نام کا عربوں میں ایک قبیلہ بھی ہے اور ’’عنزہ‘‘ اس چھوٹی برچھی یا پھل دار لاٹھی کو بھی کہتے ہیں جس کو نمازی اپنے سامنے سترہ بنانے کی غرض سے گاڑ لیتا ہے۔ اب ایک حدیث میں جس میں ایک کھلے میدان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے، یہ آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت سترہ بنانے کے لیے ایک ’’عنزہ‘‘ (چھوٹی برچھی) اپنے سامنے گاڑ لی اور اس کی طرف رخ فرما کر نماز اداکی۔ حسنِ اتفاق سے ابو موسی نامی ایک صاحب بھی گزرے ہیں جو ’’عنزہ‘‘ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ مذکورہ بالا نماز کا واقعہ پڑھ کر وہ کیا سمجھے ذیل میں ملاحظہ کیجیے!) معنی میں تصحیف کی مثال، ’’ابو موسیٰ عنزی‘‘ کا یہ قول ہے، ’’ہم وہ قوم ہیں جنہیں ایک (ایسا) اعزاز حاصل ہے (جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ) وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف رُخ فرما کر نماز اداکی۔‘‘ اس قول سے ابو موسیٰ عنزی کی مراد یہ حدیث ہے، ’’اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اِلَی عَنزَۃ‘‘[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک کھلے میدان میں ) ایک لاٹھی (کو سترہ بنا کر زمین میں گاڑا اور اس) کی طرف رخ فرما کر نماز اداکی۔‘‘ کہ (اس حدیث میں لفظ ’’عَنَزَہ‘‘ پڑھ کر ) ابو موسیٰ عنزی کو یہ وہم ہوا کہ شاید جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قبیلہ کی طرف رخ فرما کر نماز اداکی تھی۔ حالاں کہ (یہاں ) عنزہ (سے مراد عنزہ نامی قبیلہ نہیں بلکہ عنزہ) اس لاٹھی کو کہتے ہیں جسے نمازی اپنے سامنے (سترہ بنانے کی غرض سے) گاڑتا ہے۔‘‘ ۴۔ (حدیث مصحّف کی بابت) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تقسیم: (یہ تورہی حدیث مصحّف کی تقسیمات کی ایک تفصیل) جب کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تصحیف کی ایک اور تقسیم بھی ذکر کی ہے اور (اس کے اعتبار سے) انہوں نے حدیث مصحَّف کی دو قسمیں بنائی ہیں ، جو یہ ہیں :
[1] اَلعَنَزَۃُ۔نیچے پھل لگا ہوا ڈنڈا۔ بوڑھوں کے ٹیک لگانے کی چھڑی۔(القاموس الوحید ص۱۱۳۲ کالم نمبر ۲)