کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 164
میں عبقریت و حذاقت، اور (دقتِ نظر) جیسی اونچی صفات کے ساتھ متصف تھے۔ جیسے امام دارِقطنی۔ ۳۔ حدیث مصَّحَف کی تقسیمات: علماء محدثین نے حدیث مصحّف کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے، جن میں سے ہر ایک تقسیم ایک الگ اعتبار سے ہے۔ لیجئے! وہ تقسیمات یہ ہیں ! الف: …محل کے اعتبار سے تقسیم: حدیث مصحّف اپنے محل کے اعتبار سے دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے جو یہ ہیں ۔ ۱۔ تصحیف فی الاسناد:… (یہ حدیث مصحف کی وہ قسم ہے جس میں تصحیف اس کی اسناد میں ہو) اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے شعبہ نے ’’عوّام بن مُرَاجِم‘‘ سے روایت کیا ہے مگر ابن معین نے لفطِ مُرَاجِم کو ’’مُزاحِم‘‘ بنا کر روایت کیا ہے۔ ۲۔ تصحیف فی المتن:… (یہ حدیث مصحّف کی وہ قسم ہے جس کے متن میں تصحیف کی گئی ہو) اس کی مثال حضرت زید بن ثابت کی یہ حدیث ہے، ’’اَنَّ النَّبِیَّ اِحْتَجَرَ فِی الْمَسْجِدِ……‘‘ جب کہ ابن لہیعہ نے اس میں تصحیف کرتے ہوئے یہ کہا: ’’اَنَّ النَّبِیَّ اِحْتَجَمَ فی المسجد……‘‘ (کہ ’’اِحْتَجَرَ‘‘ کا معنی کسی شے کو (بچہ وغیرہ کو) گود میں لینا ہے جب کہ ’’اِحْتَجَمَ‘‘ کا معنی پچھنے لگوانا ہے) (یہ پہلی تقسیم کی دو صورتیں ہوئیں ۔ اب دوسری تقسیم کی تفصیل ملاحظہ ملاحظہ کیجیے!) ب: …منشا(اور باعث) کے اعتبار سے تقسیم: ’’حدیث مصحف‘‘ منشا اور باعث کے اعتبار سے بھی دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے، جو یہ ہیں : ۱۔ تصحیف بصر: …( یعنی وہ حدیث مصحف جس میں تصحیف کا سبب ضعف بصارت یا رداء تِ عبارت ہو کہ یا تو نگاہ اتنی کمزور ہو کہ لفظ صاف نہ دِکھتا ہو یا عبارت اس قدر خراب ہو کہ صحیح پڑھی نہ جاسکے۔ بہرحال) تصحیفِ بصر کا مطلب یہ ہے کہ قاری پر تحریر کا خط مشتبہ ہو جائے اور اس کا سبب چاہے خراب لکھائی ہو یا الفاظ پر نکتوں کا نہ ہونا ہو (مثلاً اگر لفظ مجرم کو بغیر نکتوں کے لکھا جائے تو کوئی اس کو مَحرَم بھی پڑھ سکتا ہے اور کوئی مُجرم بھی) اور زیادہ تر تصحیف کی یہی صورت (تصحیفِ بصر) پیش آتی ہے۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے:’’مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَاَتْبَعَہُ سِتًّا مِّنْ شَوَّالَ……‘‘ (جس نے رمضان کے روزے رکھے اور ان کے پیچھے شوال کے چھ روزے بھی رکھے…… الحدیث) مگر ابو بکر صُولی نے اس حدیث میں لفظ ’’سِتًّا‘‘ میں تصحیف کرتے ہوئے اس کو ’’شیئاً‘‘ بنا کر روایت کیا ہے۔ (اور ستًّا اور شیئًا میں جو فرق ہے وہ اہلِ علم پر مخفی نہیں)۔ ۲۔ تصحیفِ سمع:… یعنی (یہ حدیث مصحّف کی وہ قسم ہے جس میں ) تصحیف کا سبب یا تو (قوتِ سماعت کی (کمزوری اور) خرابی ہو یا سامع کا (محدث سے اتنا) دور ہونا ہو (کہ الفاظ صاف سنائی نہ دیتے ہوں ) اور ان صورتوں میں سامع پر بعض کلمات ’’وزنِ صرفی‘‘ کے ایک ہونے کی وجہ سے مشتبہ ہو جائیں ۔