کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 162
بعضوں نے اس کو ’’مرسل‘‘ روایت کیا ہے کسی نے اس کو ’’موصول‘‘ روایت کیا ہے کسی نے اسے حضرتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ’’مسند‘‘ قرار دیا ہے تو کسی نے اس کو حضرتِ سعد رضی اللہ عنہ سے ’’مسند‘‘ ٹھہرایا ہے اور کسی نے اس کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ’’مسند‘‘ گردانا ہے غرض ان کے علاوہ اور بھی اختلافات ہیں ۔ جب کہ اس حدیث کے سب رواۃ ثقہ ہیں ، کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا ممکن نہیں ۔ اور جمع و تطبیق بھی متعذر اور دشوار ہے۔‘‘[1] ب: …مضطرب المتن: (اس کی تعریف بھی اوپر قوسین میں بیان ہو چکی ہے) اور اس کی مثال ترمذی کی وہ حدیث ہے جو انہوں نے شریک سے روایت کی ہے جو یہ ہے: ’’عن ابی حمزہ، عن الشعبیّ، عن فاطمۃ بنتِ قیس رضی اللّٰه عنہا قالت:’’سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ عَنِ الزَّکٰوۃِ فَقَالَ: ’’اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکَاۃِ۔‘‘ [2] ’’شریک ابو حمزہ سے، وہ شعبی سے اور فاطمہ بنتِ قیس رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زکوٰۃ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی (بندوں کا) کچھ حق ہے۔‘‘ (یہ تو امام ترمذی کی روایت ہوئی) اور ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کو اس طریق سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: ’’لَیْسَ فِی الْمَالِ حَقٌّ سِوَی الزَّکٰوۃِ۔‘‘[3] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مال میں زکوٰۃ کے سوا اور کوئی (واجب) حق نہیں ہے۔‘‘ (ان دونوں روایات کو جو اسنادی قوت میں ہم پلہ ہیں ، سامنے رکھتے ہوئے اور کسی وجہ ترجیح کو نہ پاتے ہوئے) عراقی کہتے ہیں : ’’یہ ایسا اضطراب ہے جس کی تاویل نہیں ہو سکتی۔‘‘ ۵۔ اضطراب کن سے سرزد ہوتا ہے؟ الف: …کبھی تو اضطراب ایک ہی راوی سے سرزد ہوتا ہے، وہ یوں کہ وہ ایک ہی حدیث کو (ایک سے زیادہ) مختلف طریق سے روایت کرتا ہے۔ ب: …اور کبھی اضطراب (متعدد راویوں یعنی) ایک جماعت سے واقع ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک راوی
[1] تدریب الراوی ۱/۲۶۵(طحّان) [2] رواہ الترمذی ، کتاب الزکوٰۃ ۳/۴۸حدیث رقم ۶۰۹ بلفظہ (طحّان) [3] رواہ ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ ۱/۵۷۰ حدیث رقم ۱۷۸۹ بلفظہ (طحّان)