کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 159
میں اور دونوں جگہوں میں اس اضافہ کا سبب (راوی کا) وہم ہے۔ (جس کی تفصیل درج ذیل ہے):
الف: …رہی لفظِ ’’سفیان‘‘ کی زیادتی اور اس کا اضافہ تو اس کا سبب ابن مبارک سے نیچے کے راویوں کا وہم ہے (جو یہ سمجھے کہ ابن مبارک کے بعد سند میں سفیان بھی ہیں ) چوں کہ ثقات راویوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے اس حدیث کو ابن ِمبارک سے روایت کیا جس میں ان کے بعد عبدالرحمن بن یزید کا نام ہے اور انہوں نے دونوں کے درمیان سفیان کو ذکر نہیں کیا اور تو اور بعض ثقہ راویوں نے ابن مبارک کے بعد روایت کو ’’اخبرنا‘‘ کے صریح الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے (ناکہ ’’عن‘‘ کے صیغہ کے ساتھ)۔
ب: …دوسرا اضافہ ’’ابو ادریس‘‘ کے نام کا ہے۔ دراصل یہ خودا بن مبارک کا وہم ہے۔ کیوں کہ متعدد ثقات رواۃ نے یہی حدیث عبدالرحمن بن یزید سے روایت کی ہے مگر انہوں نے (بُسر بن عبید اللہ کے بعد) ابو ادریس کا نام نہیں لیا۔ بلکہ بعض نے تو بُسر بن عبداللہ کے واثلہ سے (بلاواسطہ) سماع کرنے کی صراحت کی ہے (کہ بسر نے ابو ادریس سے نہیں بلکہ واثلہ سے سنا ہے)۔
۴۔ سند میں زیادتی کے ردّ ہونے کی شروط:
(اور یہی دراصل ’’المزید فی متصل الاسانید‘‘ کے حکم کی تفصیل بھی ہے۔ چناں چہ) سند میں مذکورہ زیادتی کے رد ہونے اور راوی کی اس زیادتی کو اس کا وہم گرداننے کی دو شرطیں ہیں ، جو یہ ہیں :
الف: … مذکورہ سند میں زیادتی نہ کرنے والا راوی زیادتی کرنے والے راوی سے زیادہ متقن و مستحکم اور پختہ ہو۔
ب:… دوسری شرط یہ ہے کہ زیادتی کے مقام میں (دوسرے طریق سے مروی حدیث میں زائد راوی کے ذکر کے بغیر بلاواسطہ) سماع کی تصریح ہو۔
لہٰذا اگر یہ دونوں مذکورہ شروط نہ پائی گئیں یا دونوں میں سے ایک شرط مفقود ہوئی تو وہ زیادتی راجح اور مقبول قرار پائے گی اور اس زیادتی سے خالی اسناد کو ’’منقطع‘‘ گردانا جائے گا مگر وہ انقطاع خفی ہوگا (ناکہ ظاہر و باہر) اور یہی وہ (اسناد اور) حدیث ہوتی ہے جس کو ’’مرسَل خفی‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں ۔(جو اس ’’المزید فی متصل الاسانید‘‘ حدیث کے بالمقابل ہے جس میں شروطِ ردّ مفقود اور معدوم ہوں )۔
۵۔ (اسناد میں ) زیادتی کے وقوع(کے امکان) کے دعویٰ پر چنداعتراضات (کاجائزہ اور ان کے جوابات):
وقوعِ زیادتی کے دعویٰ پر دو اعتراضات کیے جاتے ہیں ، جو یہ ہیں :
الف: …اگر تو زیادتی سے خالی اسناد زیادتی کے مقام میں حرفِ ’’عن‘‘ کے ساتھ ہو تو اس اسناد کو منقطع قرار دینا (زیادہ) مناسب ہے۔
ب: …اور اگر زیادتی کے مقام پر ’’سماع‘‘ کی صراحت ہو تو اس میں احتمال ہے کہ راوی نے پہلے اس زائد راوی سے حدیث کو سنا ہو پھر بعد والے راوی سے بلاواسطہ بھی اس حدیث کو سنا ہو۔ ان دونوں باتوں کے یہ جوابات دیئے