کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 157
اور کسی ایک حدیث کی اسناد اور متن میں خطا نہ کی۔‘‘[1]
۳۔قلب کے اسباب و محرکات:
ایک راوی کو قلب پر آمادہ کرنے والے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں ، جو یہ ہیں :
الف: …اِغراب (یعنی نامانوس سند یا متن سنا کر دوسروں کو تعجب اور حیرت میں ڈالنے) کے قصد سے قلب کرنا تاکہ لوگ اس کی حدیث روایت کرنے اور اس سے وہ حدیث لینے کی طرف مائل ہوں ۔ [2]
ب: …دوسرے کا امتحان لینے، اس کے حفظ کی پختگی جانچنے اور اس کے ضبط کی تمامیت کے پرکھنے کی غرض سے حدیث میں قلب کرنا۔
ج: …بلا ارادہ لغزش اور خطا میں جاپڑنا بھی حدیث میں قلب واقع ہونے کا ایک سبب ہے۔
۴۔قلب کا حکم:
قلب کا حکم سببِ قلب کے حسبِ حال مختلف ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا:
الف: …اگر تو قلب کا مقصد ’’اِغراب‘‘ ہے (جس کی وضاحت گزشتہ میں گزر چکی ہے) تو یہ بات بے غبار ناجائز ہے۔ کیوں کہ دراصل یہ حدیث بدلنا ہے جو ’’جعل سازوں ‘‘ کا کام ہے۔
ب: …اور اگر قلب کا مقصد (کسی دوسرے کا) امتحان (لینا) ہے تو یہ بات کسی محدث کی استعداد اور اس کے حافظ کی پختگی پرکھنے کی غرض سے جائز ہے۔ مگر اس میں یہ شرط ہے کہ اختتامِ مجلس سے پہلے پہلے صحیح (سند اور متن) کو بیان کردے۔
ج: …اور اگر قلب کا منشا خطا اور نسیان (یعنی بھول چوک ) ہے تو اب خطاکار کے معذور ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ لیکن اگر راوی سے ایسا بکثرت ہوتا ہے تو اس سے اس کا ضبط بھی متاثر ہوگا اور وہ ضعیف بھی قرار دیا جائے گا۔ [3]
(یہ تو رہی قلب کی تفصیل، اس کی صورتیں اور ہر ایک صورت کا حکم۔ اب ذیل میں حدیث مقلوب کا اجمالی حکم ملاحظہ لیجئے!)
۵۔ حدیث مقلوب کا حکم:
’’حدیثِ مقلوب‘‘ ضعیف اور مردود کی ایک قسم ہے جیسا کہ یہ بات معلوم (اور معروف ہے) اور اس کے
[1] اس قصّہ کی تفصیل کے لیے دیکھیں ’’تاریخ بغداد ۵/۲۰‘‘ (طحّان)
[2] گویا کہ نامانوس اسناد یا متن والی حدیث سنا کر یہ راوی دوسروں پر اپنی علمی فوقیّت اور برتری جتلاتا ہے کہ میرے پاس ایسی حدیث ہے جو کسی کے پاس نہیں (علوم الحدیث، ص: ۱۷۸ بزیادۃٍ کثیرۃ)
[3] جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایسے راوی کی حدیث بھی ضعیف اور مردود قرار پائے گی۔ جیسا کہ اوپر حدیث مقلوب کے حکم میں اس کا ذکر آ رہا ہے (علوم الحدیث، ص: ۱۷۹ بتصرفٍ)