کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 155
(۲) حدیث مقلوب ۱۔ حدیثِ مقلوب کی تعریف: الف: …لغوی تعریف: لفظ ’’مقلوب‘‘ ’’قَلْب‘‘ مصدر سے اسمِ مفعول کا صیغہ ہے جس کا معنی ایک شی کو اوندھا کرنا ہے[1] (یعنی ایک شی کو الٹنا پلٹنا اور اس کے سامنے کو پھیر کر پیچھے کرنا یا اس کے برعکس کرنا، اسی طرح اندر کو باہر یا باہر کو اندر اور دائیں کو بائیں یا اس کے برخلاف کرنا۔ کما فی ’’القاموس الوحید ص۱۳۴۳۔ ۱۳۴۴۔ ) ب: …اصطلاحی تعریف: ’’(محدثین کی اصطلاح میں ) قلب یہ حدیث کی سند یا متن میں ایک لفظ کی جگہ دوسرے لفظ کے لانے یا ان میں تقدیم و تاخیر وغیرہ کرنے کو کہتے ہیں ۔‘‘[2] ۲۔ قلب کی اقسام: بنیادی طور پر حدیث مقلوب دو بڑی قسموں میں بٹتی ہے، جو یہ ہیں : مقلوب السند اور مقلوب المتن۔ (ذیل میں ہر ایک قسم کو مفصّل بیان کیا جاتا ہے) الف:… مقلوب السند: یہ وہ حدیث ہے جس میں تبدیلی اس کی سند میں واقع ہوئی ہو او رسند میں اس تبدیلی کی دو (امکانی) صورتیں ہیں : ۱۔ ایک یہ کہ کسی راوی کے نام میں تقدیم و تاخیر کردی جائے۔ جس کی صورت یہ ہو کہ اس کے اور اس کے والد کے نام کو آگے پیچھے کردیا جائے۔ جیسے ایک حدیث کو جو حضرت ’’کعب بن مُرّہ‘‘ سے مروی ہو، اس کو کوئی راوی ’’مُرّہ بن کعب‘‘ بنا کر ان سے روایت کردے۔ ۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک راوی کے نام کی جگہ کسی دوسرے کا نام رکھ دیا جائے (یعنی ایک راوی کی جگہ دوسرا راوی ذکر کیا جائے) اور ایسا حدیث کو غریب (یعنی نامانوس) بنانے کی غرض سے کیا جائے۔ جیسا حضرت سالم رضی اللہ عنہ سے مروی کسی مشہور حدیث کو ’’نافع‘‘ کی حدیث بنا کر پیش کرنا (یعنی سالم کی جگہ نافع کا نام رکھ دینا)۔ رواۃِ حدیث میں سے جن لوگوں نے اس فعل کے ارتکاب میں خوب نام کمایا ان میں سے ایک نام ’’حماد بن عمرو نصیبی‘‘ کا ہے۔ مقلوب السند کی دوسری صورت کی مثال:اس کی مثال وہ حدیث ہے جو حماد نصیبی نے اعمش سے، انہوں نے
[1] دیکھیں ’’القاموس المحیط لفیروز آبادی ۱/۱۲۳ (طحّان) [2] انظر النخبۃ مع شرحھا ص۴۹، و ’’النکت‘‘ للحافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ۲/۸۶۴ کلاھما بمعناہ (طحّان)