کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 154
۳۔ (حدیث میں ) اِدراج کے (وقوع کے) اسباب و محرکات: (حدیث میں ) اِدراج کے متعدد اسباب و محرکات ہیں جن میں سے چند مشہور یہ ہیں : الف: …کسی حکمِ شرعی کا بیان (جیسا کہ ادراج کی پہلی صورت کی مثال میں گزرا) ب: …حدیث کے اختتام سے پہلے الفاظِ حدیث سے کسی حکمِ شرعی کا استنباط کرنا (دوسرے لفظوں میں الفاظ حدیث سے کسی مفید مضمون کو اخذ کرنا جیسا کہ تیسری صورت کی مثال میں گزرا) ج: …حدیث کے کسی نامانوس لفظ کی تشریح کرنا (جیسا کہ ادراج کی دوسری صورت کی مثال میں گزرا)۔ ۴۔ ادراج کا ادراک کیوں کر ہوتا ہے؟ مضمونِ حدیث میں ادراج کو درجِ ذیل امور میں سے کسی ایک کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے: ۱۔ کسی دوسرے طریق سے مذکورہ حدیث کا مفصَّل وارد ہونا( جس سے مدرج کلام کا عیاں ہو جائے جیسا کہ ابو قطن اور شبابہ کی روایت کا اِدراج امام بخاری کی روایت سے عیاں ہوا) ۲۔ کسی ماہرِ فن محقق امام کا ادراج کی تصریح کرنا ۳۔ خود راوی کا اقرار کرنا کہ اس نے کلامِ حدیث میں ادراج کا ارتکاب کیا ہے۔ ۴۔ (منصب نبوت کے بلند و برتر مرتبہ و منصب کے شایانِ شان نہ ہونے کی بنا پر) ایسے کلام کے لسانِ نبوت سے صدور کا ناممکن اور محال ہونا۔ (جیسا کہ ادراج کی تیسری صورت کی مثال میں گزرا)۔ ۵۔ ادراج (کی سب صورتوں ) کا حکم: حضرات علماء، محدثین اور فقہاء وغیرہ سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ ’’ادراج فی الحدیث‘‘ حرام ہے البتہ (حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طبقہ اس حکم سے بالاجماع مستثنیٰ ہے۔ اسی طرح) اس حکم سے وہ صورت (بھی) مستثنیٰ ہے جس میں حدیث کے کسی لفظ کی تشریح اور تفسیر بیان کی جائے کہ یہ غیر ممنوع ہے۔ اسی لیے امام زہری جیسے حضرات ائمہ حدیث نے بھی ایسا کیا۔ ۶۔ ’’ادراج‘‘ پر لکھی جانے والی مشہور کتب: الف: …’’اَلْفَصْلُ لِلْوَصْلِ الْمُدْرَجِ فِی النَّقْلِ‘‘ اس کے مصنف خطیب بغدادی رحمہ اللہ متوفی ۴۶۳ھ ہیں ۔ ب: …’’تَقْرِیبُ المَنْھَجِ بِتَرْتِیْبِ الْمُدْرَجِ‘‘ یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف ہے جو دراصل خطیب رحمہ اللہ بغدادی کی کتاب کی تلخیص بھی ہے اور اس پر (مفید) اضافہ بھی۔