کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 152
بہ نسبت ابتداء میں ادراج کا وقوع زیادہ ہے۔
ب: …یا پھر ادراج حدیث کے بیچ میں ہوگا۔ بہ نسبت پہلی قسم کے اس کا وقوع کم ہے۔
ج: …اور یا ادراج حدیث کے آخر میں ہوگا۔ اور زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔[1]
۳۔ ’’ادراج فی المتن‘‘ کی (تینوں صورتوں کی) مثالیں :
الف: …(پہلی صورت یعنی) آغازِ حدیث میں ادراج واقع ہونے کی مثال: آغاز حدیث میں ادراج کا (عمومی) سبب یہ ہوتا ہے کہ راوی ایک کلام کو ذکر کرتا ہے، پھر کسی حدیث کے ذریعے اس کی دلیل لانے کا ارادہ کرتا ہے مگر وہ اس حدیث کو (اپنے گزشتہ مذکورہ کلام کے ساتھ) بلافصل لے آتا ہے (اور حدیث ذکر کرتے وقت مثلاً یہ نہیں کہتا کہ میری اس بات کی دلیل یہ ارشاد نبوی ہے وغیرہ وغیرہ) جس سے سننے والے کو یہ وہم ہو جاتا ہے کہ یہ پورا کلام ہی حدیث ہے۔
اس کی مثال وہ حدیث ہے جو خطیب نے ابو قطن اور شبابہ سے الگ الگ شعبہ کے واسطے سے نقل کی ہے کہ شعبہ محمد بن زیاد سے اور وہ حضرتِ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’’اَسْبِغُوا الْوُضُوْئَ ، وَیْلٌ لِّلْاَعْقَابِ مِنَ النَّارِ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’وضو خوب پورا کیا کرو، (ان) ایڑیوں کے لیے دوزخ کی آگ کی ہلاکت ہے(جنہیں وضو میں دھویا نہ جائے)۔
اس حدیث میں ’’اسبغوا الوضوء‘‘ کا جملہ (حدیث نہیں بلکہ) حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس کو حدیث کے متن میں (اور اس کے بھی آغاز میں ) ملادیا گیا ہے۔ جیسا کہ خطیب امام بخاری رحمہ اللہ کی روایت میں یہ بات واضح اور عیاں کرتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے آدم سے، انہوں نے شعبہ سے، انہوں نے محمد بن زیاد سے اور انہوں نے حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اَسْبِغُوا الْوُضُوْئَ فَاِنَّ اَبَا الْقَاسِمِ صلي اللّٰه عليه وسلم قال : ’وَیْلٌ لِّـلْاَعِقَابِ مِنَ النَّارِ‘‘
’’وضو پورا پورا کیا کرو کیوں کہ جنابِ رسالت مآب ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، (ان) ایڑیوں کے لیے دوزخ کی آگ سے ہلاکت ہے (جنہیں وضو میں اچھی طرح دھویا نہ جائے)۔‘‘
خطیب (یہ حدیث بیان کرنے کے بعد) کہتے ہیں : ’’ابو قطن اور شبابہ کو شعبہ سے روایت کرنے میں وہم ہوا ہے۔ (کہ انہوں نے حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے کلام کو بھی حدیث سمجھ کر اسے متن کے ساتھ ملا کر ذکر کردیا) جیسا کہ ہم نے اس کو بیان کیا ہے کیوں کہ (ان کے علاوہ بھی) رواۃ کی ایک بڑی تعداد نے اسی حدیث کو شعبہ سے روایت کیا ہے۔ جیسے
[1] ’’تدریب الراوی ۱/۲۷۰ ‘‘ (طحّان)