کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 149
ب: …’’عِلَلُ الْحَدِیثِ‘‘ مولف ابن ابی حاتم رحمہ اللہ متوفی ۳۲۷ھ ج: …’’اَلْعِلَلُ وَمَعْرِفَۃُ الرِّجَالِ‘‘ مولف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ متوفی ۲۴۱ھ د: …’’العِلَلُ الْکَبِیْرُ وَالعِلَلُ الصَّغِیْرُ‘‘ مؤلف امام ترمذی رحمہ اللہ متوفی ۲۷۰ھ ھ: …’’اَلْعِلَلُ الْوَارِدَۃُ فِی الْاَحَادِیْثِ النَّبَوِیَّۃِ‘‘ مولف امام دارقطنی رحمہ اللہ متوفی ۳۸۵ھ اور یہ کتاب اس فن کی جامع ترین اور وسیع ترین کتاب ہے۔ (۷) مخالفت ثقات جب راوی میں طعن کا سبب اس کا ثقات رواۃ کی مخالفت کرنا ہو، تو راوی کے ثقات کی مخالفت کرنے سے فنِ علوم الحدیث کی پانچ[1]اقسام وجود میں آتی ہیں ۔ جن کے نام یہ ہیں : مُدْرَج مَقْلُوْب اَلْمَزِیْدُ فِی مُتَّصِلِ الْاَسَانِیْدِ مُضْطَرِب اور مُصَحَّف یاد رہے کہ مخالفتِ ثقات راوی میں طعن کا ساتواں سبب ہے۔ (جب کہ اسباب طعن متعلق بضبط کی یہ پانچویں قسم ہے) (اور مخالفتِ ثقات سے پانچ قسموں کے پیدا ہونے کی اجمالی تفصیل یہ ہے کہ) ۱۔ اگر تو مخالفت کی صورت یہ ہو کہ اسناد کے لانے میں کوئی تبدیلی کردی گئی ہو یا سندِ موقوف کو سندِ مرفوع میں مدغم کردیا (اور ملادیا) گیا ہو تو ایسی حدیث کو ’’مُدْرَج‘‘ کہیں گے۔ ۲۔ اور ’’مخالفت‘‘ اسناد میں تقدیم و تاخیر کی صورت میں کی گئی ہے تو ایسی حدیث کو ’’مَقْلُوْب‘‘ کہیں گے۔ ۳۔ اور اگر مخالفت کی صورت یہ ہو کہ سند میں (دوسری معتبر اسناد کے بالمقابل) کسی راوی کا اضافہ اور زیادتی ہو تو اس کو ’’المزید فی متّصل الاسانید‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ۴۔ اور اگر مخالفت کی یہ صورت ہو کہ ایک راوی کی جگہ دوسرے راوی کا نام رکھ دیا گیا ہو یا متن میں ایسا ٹکراؤ اور
[1] اور ان میں سے ہر ایک کو مستقل ایک علم کا نام اور مقام دیا گیا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۷۱) علامہ اسعدی نے شاذ اور منکر کو بھی ان اقسام میں شمار کرکے ان کی تعداد سات بتلائی ہے۔ جب کہ مؤلف موصوف نے ان کے مخالفتِ ثقات کے تحت شمار ہونے کی طرف اشارہ کرکے انہیں الگ سے گنوا دیا ہے۔ مگر مآل دونوں کی عبارات کا ایک ہی ہے کہ واقعی یہ کل سات قسمیں ہیں ۔خواہ انہیں اکٹھے ذکر کرو، خواہ دو کو ایک دوسرے کا قسیم ہونے کی بنا پر الگ اور باقی پانچ کو الگ ذکر کرو۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چوں کہ شاذ کے بالمقابل محفوظ اور منکر کے بالمقابل معروف کی صحیح اور مقبول احادیث کی اقسام آتی ہیں اس لیے اُن دونوں کو اِن پانچ اقسام سے الگ ذکر کیا ہے۔ دیکھیں حوالہ بالا۔ فقط واللہ اعلم۔