کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 148
پھر جاکر معلول روایت پر (حسبِ تحقیق کوئی) حکم لگایا جائے۔
۸۔ ’’علّت‘‘ کن کن مواقع میں ہوتی ہے؟
(بظاہر علت دو ہی مواقع میں ہو سکتی ہے، یا تو اسناد میں یا پھر متن میں ۔ ذیل میں ہر ایک کا اختصار کے ساتھ تعارف ملاحظہ کیجیے!)
الف:… علت (یا تو) اسناد میں واقع ہوتی ہے۔ اور اکثر یہی ہوتا ہے جیسے کسی اسناد میں موقوف یا مرسل ہونے کی علّت۔
ب: …اور (یا) علت متن میں واقع ہوتی ہے۔ مگر ایسا کم ہوتا ہے۔ جیسے نماز میں بسم اللہ کی قراء ت کی نفی کی حدیث۔
۹۔ کیا ’’علت فی الاسناد‘‘ متن کو بھی مجروح کرتی ہے؟
(علت کا دائرۂ اثر کہاں تک پھیلا ہوتا ہے اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں کہ)
الف: …کبھی تو ’’علت‘‘ اسناد کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ متنِ حدیث کو بھی مجروح کر دیتی ہے جیسے کسی حدیث کا (موصولاً مروی ہونا مگر بعد تحقیق کے اس کا) ’’ارسال‘‘ کی علّت کے ساتھ پایا جانا (کہ اس سے سند کے ساتھ ساتھ متن بھی غیر مقبول گردانا جاتا ہے)۔
ب:… اور کبھی علت صرف اسناد کو ہی مجروح کرتی ہے۔ جب کہ متنِ حدیث (سند کے مجروح ہونے کے باوجود) صحیح رہتا ہے۔
اس کی مثال یعلی بن عبید کی روایت ہے جو یہ ہے:
’’عن سفیان الثوری، عن عمرو بن دینارٍ عن ابن عمر مرفوعاً ’’اَلبَیِّعَانِ بِالخِیَارِ‘‘
’’یعلی، سفیان ثوری سے ، وہ عمرو بن دینار سے اور وہ حضرتِ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ ’’دو خرید و فروخت کرنے والے (جب تک کہ وہ مجلسِ عقد سے جدا نہیں ہوجاتے) خیار کے ساتھ ہیں (چاہیں تو عقد نافذ کردیں اور چاہیں تو عقد فسخ کردیں )۔‘‘
(اب اس روایت کی سند میں علّتِ غامضہ مخفیّہ یہ ہے کہ) یعلی کو سفیان ثوری کے قول، ’’عمرو بن دینار‘‘ کی بابت سفیان ثوری پر وہم ہو گیا کہ دراصل وہ ’’عبداللہ بن دینار‘‘ ہیں (مگر یعلی کو یہ وہم ہوا کہ سفیان نے ان کا نام عمرو بن دینار بتلایا ہے) لیکن (اس کے باوجود بھی) یہ متن صحیح ہے اگرچہ اسناد میں (ایک راوی کا نام ذکر کرنے کی) غلطی کی علّت ہے (مگر یہ غلطی متنِ حدیث میں مضر نہیں ) کیوں کہ عمرو بن دینار ہوں یا عبداللہ بن دینار دونوں ثقہ راوی ہیں ۔ اور (اسناد میں ) ایک ثقہ کی جگہ دوسرے ثقہ راوی کا نام لے لینا متنِ حدیث کے حق میں مضّر نہیں ہوتا اگرچہ سند کے رواۃ کے شمار میں ’’غلطی‘‘ شمار ہوتا ہے۔
۱۰۔ عِلَلِ حدیث کی مشہور تصانیف:
الف: …’’کِتَابُ العِلَل‘‘ مؤلّف ابن المدینی متوفی ۲۳۴ھ