کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 147
ماہرین کو ہی حاصل ہوتی ہے اور ان کی معرفت پر صرف انہی (اعلیٰ درجہ کے باکمال محققین) علماء کو دسترس اور قدرت ہوتی ہے جو زبردست حافظہ، وسیع معلومات اور پختہ فہم و بصیرت رکھتے ہیں ۔اس لیے اس بحرِ ناپیدا کنار میں قدم رکھنے کی جرات کرنے والے علماء وائمہ کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ جیسے ابن المدینی، امام احمد، امام بخاری، ابو حاتم اور دارقطنی (جیسے عبقری اور اساطینِ علم و فن حضرات علماء و ائمہ)۔ ۵۔ تعلیل کس اسناد میں در آتی ہے؟ تعلیل ایسی اِسناد میں گھس آتی ہے جو بظاہر صحت کی جملہ شروط کی جامع ہوتی ہے، کیوں کہ ضعیف حدیث کی علتوں کی جستجو کرنے کی (بظاہر) ضرورت نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ تو خود مردود اور غیر معمول بہ ہوتی ہے۔[1] ۶۔ کن امور کے ذریعے ’’علت‘‘ کو تلاش کیا جاسکتا ہے؟ (کسی بھی صحیح حدیث میں ) علت کو درج ذیل امور سے ڈھونڈا جاسکتا ہے: الف: …راوی کا تفرد ب:… کسی دوسرے راوی کا (روایتِ حدیث میں ) اس کی مخالفت کرنا۔ ج:… ایسے قرائن جو مذکورہ بالا دونوں شقّوں کو شامل ہوں ۔ یہ مذکورہ امور اس فنّ کے ماہر کو راوی کے اس وہم پر مطلع اور متنبّہ کرتے ہیں جو اُس سے مذکورہ حدیث میں سرزد ہوا ہوتا ہے۔ اس کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں : مثلاً راوی نے اس حدیث کو موصول روایت کیا ہو، جب کہ تحقیق کے بعد اس کا مرسل ہونا معلوم ہوا ہو یا راوی نے اس کو مرفوع روایت کیا ہو۔ جب کہ غورو تدبر کے بعد اس کا موقوف ہونا ظاہر ہوا ہو یا بحث و تنقید کے بعد یہ معلوم ہو کہ راوی نے دو حدیثوں کو خلط ملط کر دیا ہے کہ ایک کے مضمون کو دوسری کے مضمون میں شامل کردیا ہو۔ غرض اس طرح کے دوسرے اوہام جو راوی سے سرزد ہوئے ہوں (کہ مذکورہ بالا امور ماہر نقاد محدث کو ان اوہام پر متنبہ کرتے ہیں ) جس سے اُسے ان (امور کے واقع ہونے) کا گمان غالب ہو جاتا ہے اور وہ حدیث کے غیر صحیح ہونے کا حکم لگادیتا ہے۔ ۷۔ حدیث معلَّل کی معرفت کا طریقہ کون سا ہے؟ حدیث معلَّل کی معرفت کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے حدیث کے سب طرق کو جمع کیا جائے۔ پھر رواۃ کے اختلاف کا جائزہ لیا جائے(کہ کون سا راوی کس درجہ کا ہے، کس کا مرتبہ کس سے کتنا مختلف ہے) ۔ پھر ان کے ضبط و اِتقان کا موازنہ و مقارنہ کیا جائے (کہ کس کا ضبط تام اور کس کا خفیف ہے)
[1] یعنی ضعیف حدیث کا ضعف اس درجہ کا کھلا اور ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے عیوب و علل کی جستجو کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی اور نہ اس پر عمل کرنے کی اجازت ہی ہوتی ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۶۸ بزیادۃٍ)