کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 146
چناں چہ علّت کی مذکورہ تعریف سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ حضراتِ محدثین کے نزدیک ’’علّت‘‘ میں دو شرطوں کا پایا جانا ناگزیر ہے (جن میں سے ایک کا تحقق کافی نہ ہوگا)، جو یہ ہیں : ۱۔ ایک یہ کہ اس علت میں غموض[1] اور خِفَا (یعنی عدمِ وضوح اور پوشیدگی) ہو۔ ۲۔ دوسری یہ کہ وہ علت حدیث کی صحت کو مجروح کردینے والی بھی ہو۔ پس اگر ان دونوں باتوں میں سے ایک بات نہ پائی گئی مثلاً یہ کہ وہ علت (مخفی، گہری اور پوشیدہ نہ ہو بلکہ) ظاہر (اور عیاں ) ہو یا یہ کہ وہ علت صحتِ حدیث پر اثر انداز نہ ہو تو اس صورت میں اس کو اصطلاحی ’’علّت‘‘ نہ کہیں گے۔ ۳۔ کبھی لفظ ’’علّت‘‘ کا اطلاق اپنے غیر اصطلاحی معنی پر بھی ہو جاتا ہے: مذکورہ بالا عبارت میں ہم نے ’’علّت‘‘ کی جو تعریف ذکر کی ہے، وہ حضرات محدثین کی اصطلاح ہے۔ لیکن علماء کبھی کبھی لفظ ’’علّت‘‘ کا اطلاق حدیث کے کسی بھی ’’طعن‘‘ پر کر دیتے ہیں اگرچہ وہ طعن پوشیدہ یا حدیث کی صحت کو مجروح کرنے والا نہ بھی ہو۔ (ذیل میں لفظِ ’’علّت‘‘ کے غیر اصطلاحی اطلاق کے دونوں محل ذکر کیے جاتے ہیں )۔ الف:… لفظ ’’علّت‘‘ کے غیر اصطلاحی اطلاق کی پہلی قسم: مثلاً راوی کے کذب، یا غفلت یا خراب حافظہ وغیرہ کو علّت کہہ دینا اور تو اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے تو ’’نسخ‘‘ تک کو ’’علّت‘‘ کہہ دیا ہے۔[2] ب:… ’’علّت‘‘ کے غیر اصطلاحی اطلاق کی دوسری قسم: ایسی مخالفت کو ’’علّت‘‘ کہہ دینا جو صحتِ حدیث پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ جیسے ایسی حدیث کو مُرْسَل روایت کرنا جس کو کسی ثقہ راوی نے موصول روایت کیا ہو (اب اس ’’ارسال‘‘ کو ’’علّت‘‘ کہہ دینا اس لفظ کا غیر اصطلاحی اطلاق ہے کیوں کہ ایسا ’’ارسال‘‘ صحتِ حدیث کو مجروح نہیں کرتا)۔ اسی بناء پر بعض علماء نے (یہاں تک) کہہ دیا ہے کہ، ’’بعض صحیح احادیث ایسی بھی ہیں جو صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ ’’مُعلَّل [3]بھی ہیں ۔‘‘ ۴۔ اس فن کی عظمت و جلالت، دقّت و نزاکت اور اس کے ماہرین کا بیان: ’’علوم الحدیث‘‘ میں عِلَل حدیث کی معرفت کا فن بڑا جلیل القدر، عظیم الشان اور دقیق ہے (کہ اس کی جزئیات کی واقفیّت بڑی گہری تحقیق کی طالب ہوتی ہے اور اس تک معرفت و رسائی ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں ہوتا) کیوں کہ اس میں ان غامض اور پوشیدہ عِلَل کو ظاہر کرنے کی احتیاج ہوتی ہے جن تک رسائی صرف علوم الحدیث کے نقاّد
[1] کسی جگہ کے اتنے نیچے ہونے کو ’’غموض‘‘ کہتے ہیں جہاں کچھ نظر نہ آئے اور ’’غموض الکلام‘‘ کلام کے غیر واضح ہونے کو کہتے ہیں (القاموس الوحید، ص: ۱۱۸۳) یعنی علّت ایسا گہرا سبب ہوتا ہے جس پر تقریباً مطلع نہیں ہوا جاتا۔ [2] جب کہ ان امور میں سے کوئی بھی مخفی نہیں ہوتا چہ جائیکہ غامض بھی ہو البتہ یہ امور صحتِ حدیث پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں (ازعلوم الحدیث ص۱۶۸ بزیادۃ) [3] کہ یہاں لفظِ ’’علّت‘‘ غیر اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے وگرنہ جِس حدیث میں ’’علتِ اصطلاحیّہ‘‘ پائی جائے وہ ’’صحیح‘‘ نہیں ہو سکتی۔