کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 145
(۶) حدیث مُعَلَّل جب راوی میں طعن کا سبب ’’وھم‘‘ ہو تو اس حدیث کو ’’مُعَلَّل‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور یہ راوی میں طعن کا چھٹا سبب ہے۔ [1] ۱۔ مَعَلَّل کی تعریف: الف: …لغوی تعریف: (لفظ مُعَلَّل) دراصل اَعَلَّہُ بِکَذَا (بابِ اِفْعَال) سے اسم مفعول کا صیغہ ’’مُعَلُّ‘‘ ہے (جس کا معنی ہے ’’بیمار کیا ہوا‘‘) اور یہی مشہور صرفی قیاس[2] ہے اور یہی فصیح لغت [3]بھی ہے۔ رہ گیا حضرات محدثین کا (حدیث کی اس قسم کو) ’’مُعَلَّل‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرنا تو وہ غیر مشہور لغت ہے [4] اور جن محدثین نے حدیث کی اس قسم کو ’’معلول‘‘ کے نام سے پکارا ہے تو ان کی یہ تعبیر عربیّت اور لغت کے ماہرین کے نزدیک نہ صرف کمزور بلکہ خراب (اورردّی) ہے۔[5] ب:… اصطلاحی تعریف: (اصطلاح محدثین میں ) مُعَلَّل وہ حدیث ہے جس میں ایک ایسی ’’علّت‘‘ کا پتا لگے جو حدیث کی صحت میں قادح (اور اس پر اثر انداز) ہو، جب کہ اس کا ظاہر اس علت سے محفوظ نظر آتا ہو۔‘‘ [6] (یعنی بظاہر وہ حدیث بے عیب ہو مگر اس کے اندر ایک ایسے عیب کا علم ہو جو اس کی صحت کو مجروح کردے۔(علوم الحدیث، ص: ۱۶۷) ) ۲۔ علت کی تعریف: ’’علت‘‘ اس پوشیدہ اور گہرے سبب (اور عیب) کو کہتے ہیں جو حدیث کی صحت کو مجروح کردے‘‘[7]
[1] جب کہ دراصل یہ اسبابِ طعن متعلق بہ ضبط میں سے چوتھا سبب ہے۔ واللہ اعلم۔ [2] یعنی مشہور صرفیّہ قواعد کی رو سے مصدر اِعْلَالُ کا اسم مفعول ’’مُعَلُّ‘‘ آتا ہے۔ [3] کیوں کہ ’’اِعلَال‘‘ کا معنی ہی مذکورہ سببِ طعن کے مناسب ہے۔ [4] کیوں کہ مُعَلَّل کا لفظ باب تفعیل کے مصدر عَلَّلَہُ کا مفعول بہ بنتا ہے جس کا معنی کسی کا دل بہلانا ہے اسی سے ’’تَعْلِیْلُ الْاُمّ وَلَدَھَا‘‘ ہے یعنی ماں کا بچے کو بہلانا (طحّان) اور بظاہر یہ معنی مذکورہ سببِ طعن کے غیر مناسب ہے اس لیے حضرات محدثین کا حدیث کی اس قسم کو مُعَلٌّ کی بجائے جو فصیح ہے، ’’مُعَلَّل‘‘ کہنا اس معنی میں غیر مشہور اور غیر فصیح لغت ہے جو بظاہر تسامح پر محمول ہے۔ [5] کیوں کہ ثلاثی مزید فیہ از بابِ اِفْعَال کا اسم مفعول ’’مَفْعُوْلُ‘‘ کے وزن پر نہیں آتا۔ دیکھیں ’’علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۸۱ (طحّان) اور صاحبِ ’’القاموس الوحید‘‘ (ص۱۱۱۷) نے اس کو نادر الوقوع قرار دیا ہے۔ [6] ’’علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۹۰ ‘‘ (طحّان) [7] ’’علوم الحدیث لا بن الصلاح‘‘ ص۹۰ (طحّان)