کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 143
بیہقی (اس حدیث کے شاذ المتن ہونے کو بتلاتے ہوئے) کہتے ہیں : ’’اس حدیث میں عبدالواحد نے متعدد (ثقہ) رواۃ کی مخالفت کی ہے، کیوں کہ دوسرے حضرات نے اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل بنا کر روایت کیا ہے جب کہ عبدالواحد اسے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا قول بنا کر روایت کر رہے ہیں ۔ اب عبدالواحد جو اعمش کے ثقہ اصحاب میں سے ہیں وہ اس لفظ میں متفرد ہیں ۔‘‘[1]
۴۔ محفوظ:
مذکورہ بالا تفصیل کی بنا پر ’’محفوظ‘‘ وہ حدیث ہے جو ’’شاذ‘‘ کے بالمقابل ہو۔ بہرحال (محفوظ کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ) یہ وہ حدیث ہے جسے ایک سے زیادہ ثقہ رواۃ کسی ثقہ راوی کے برخلاف روایت کریں ۔‘‘
اور اس کی مثال مذکورہ بالا دونوں احادیث ہیں جنہیں شاذ کی نوع میں بطورِ مثال کے ذکر کیا ہے۔ لیکن ان میں وہ احادیث مثال بنیں گی جو ’’اوثق‘‘ طریق سے مروی ہوں ۔ [2]
۵۔ شاذ اور محفوظ حدیث کا حکم:
یہ بات (گزشتہ میں ) معلوم (ہوچکی) ہے کہ حدیثِ شاذ ’’مردود‘‘ اور حدیثِ محفوظ ’’مقبول‘‘ ہے۔[3]
مشقی سوالات
درج ذیل سوالات کے جواب دیں ۔
۱۔ راوی میں پائے جانے والے اسباب طعن کی نشان دہی کیجیے۔
۲۔ موضوع حدیث کی اصطلاحی تعریف کریں نیزاس کے روایت کرنے کا کیا حکم ہے؟
۳۔ حدیث گھڑنے کے لیے جعل سازوں نے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کیے نیز موضوع حدیث کی پہچان کیوں کر ممکن ہے؟
[1] اگرچہ عبدالواحد ثقہ ہیں جو اس حدیث کو حضرتِ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا قول بنا کر روایت کر رہے ہیں مگر دوسرے رواۃ کثرتِ تعداد کی بنا پر اس سے فائق ہیں جو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل بنا کر روایت کرتے ہیں ۔ اس حدیث کو ’’شاذ المتن‘‘ کہیں گے کہ ایک ثقہ راوی اس کے متن کو ان ثقہ رواۃ کے متن کے خلاف روایت کر رہا ہے جو درجہ میں اس سے فائق ہیں ۔ پس عبدالواحد کی روایت ’’شاذ‘‘ اور دوسرے حضرات کی روایت ’’محفوظ‘‘ کہلائے گی۔ اس مقام پر علامہ اسعدی نے ’’علوم الحدیث ص۱۹۰‘‘ میں مضطرب بلکہ متضاد عبارات نقل کی ہیں جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ۔ اہل علم مذکورہ حوالہ کی مراجعت کرلیں ۔
[2] پس شاذ کی طرح اس کی بھی ایک مثال ’’محفوظ الاسناد‘‘ اور دوسری مثال ’’محفوظ المتن‘‘ کہلائے گی۔ مثلاً ’’محفوظ الاسناد‘‘ کی مثال وہ روایت ہوگی جس کو ابن عیینہ، ابن جریج اور دوسرے حضرات نے روایت کیا ہے جس کے ’’محفوظ‘‘ ہونے کی امام ابو حاتم نے تصریح کی ہے۔
اور ’’محفوظ المتن‘‘ کی مثال وہ روایت بنے گی جس کو عبدالواحد کے برخلاف امام اعمش کے دوسرے ثقہ اصحاب نے روایت کیا ہے۔ جیسا کہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ فقط واللہ اعلم۔
[3] البتہ قبولیت کے درجہ کا انحصار رواۃِ حدیث کے احوال پر ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۹۰)