کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 142
نے ابن عیینہ کے طریق سے روایت کی ہے، جو یہ ہے: ’’عن عمرو بن دینار ، عن عوسجۃ ، عن ابن عباس، ’’انّ رَجْلاً تُوُفِّيَ عَلَی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ یَدَعْ وَارِثًا اِلاَّ مَوْلًی ھُوَ اَعْتَقَہُ‘‘[1] ’’ابن عیینہ، عمرو بن دینار سے، وہ عوسجہ سے، وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ، ’’ایک شخص کا عہدِ رسالت میں انتقال ہو گیا اور اس نے سوائے اس آقا کے جس نے اسے (اس کی زندگی میں ) آزاد کردیا ہوا تھا، اور کوئی وارث نہ چھوڑا۔‘‘ ابن جریج وغیرہ نے ابن عیینہ کی متابعت میں اس روایت کو موصولاً روایت کیا ہے۔ لیکن حماد بن زید نے ان حضرات کے برخلاف اس حدیث کو عمرو بن دینار سے بواسطہ عوسجہ کے (مرسلاً) روایت کیا اور (اپنی اسناد میں ) حضرتِ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ذکر نہیں کیا۔ اسی لیے ابو حاتم (دونوں احادیث کی اسنادی حیثیت پر کلام کرتے ہوئے) فرماتے ہیں : ’’(دونوں میں ) محفوظ روایت ’’ابن عیینہ‘‘ کی ہے۔‘‘ پس حماد اگرچہ عادل اور اہلِ ضبط ہیں مگر ابو حاتم نے ان کے مقابلے میں ان کی روایت کو ترجیح دی ہے جو عدد میں ان سے زیادہ ہیں ۔‘‘[2] ب:… متن میں شذوذ (یعنی شاذ المتن) کی مثال: (اس کی مثال) وہ حدیث ہے جو ابو داؤد اور ترمذی نے عبدالواحد بن زیاد کی حدیث سے روایت کی ہے جو یہ ہے: ’’عن الاعمش، عن ابی صالح، عن ابی ھریرۃ مرفوعاً: ’’اِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمُ الْفَجْرَ فَلْیَضْطَجِحْ عَنْ یَمِیْنِہِ‘‘[3] ’’عبدالواحد بن زیاد، اعمش سے، وہ ابو صالح سے اور وہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ ، ’’جب تم میں سے کوئی فجر کی نماز ادا کرلے تو (کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے) اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جائے۔‘‘
[1] رواہ ابو داؤد کتاب الفرائض حدیث رقم ۲۹۰۵ بمعناہ (طحّان) [2] اور یہی شاذ کی تعریف ہے کہ اس حدیث کو روایت کرنے والا اپنے سے فائق راویوں کی حدیث کے خلاف روایت کرے اب مذکورہ حدیث کے ایک راوی حماد بن زید ہیں جو اس کو مرسلاً روایت کر رہے ہیں ۔ اور اس حدیث کے دوسرے راوی ابن عیینہ، ابن جریج اور دوسرے حضرات ہیں جو اس کو موصولاً روایت کر رہے ہیں ۔ اب حماد بن زید اور ابن عیینہ اور ابن جریج وغیرہ سب حضرات ثقہ عادل اور اہلِ ضبط ہیں لیکن ابن عیینہ حماد بن زید سے کثرت تعداد کی بنا پر فائق ہیں ۔ لہٰذا حماد کا اپنے سے فائق راوی کے خلاف حدیث روایت کرنا شذوذ کہلائے گا کہ حماد اس کو مرسل اور ابن عیینہ موصول روایت کر رہے ہیں ۔ پس حماد کی روایت شاذ اور ابن عیینہ وغیرہ حضرات کی حدیث محفوظ کہلائے گی۔ ’’کما صرَّح بہ ابو حاتم‘‘ ۔ [3] رواہ ابو داؤد ۔ کتاب الصلوٰۃ حدیث رقم ۱۲۶۱ بمعناہ، ورواہ الترمذی ۔ کتاب الصلوٰۃ حدیث رقم ۴۲۰ بلفظہ۔