کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 141
کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں : ’’یہ روایت منکر ہے کیوں کہ اس حدیث کو حبیب کے سوا دوسرے راویوں نے بھی ابو اسحاق سے موقوفاً روایت کیا ہے اور وہ حدیث (اس موقوف اسناد کے ساتھ) معروف ہے(ناکہ منکر)۔ ‘‘[1] ۵… شاذّ اور محفوظ ۱۔ شاذ کی تعریف: الف:… لفظ ’’شَاذّ‘‘ ’’شَذَّ‘‘ فعل سے اسمِ فاعل کا صیغہ ہے۔ اور اس کا معنی الگ تھلگ ہونا اور تنہا رہ جانا ہے۔ پس ’’شاذ‘‘ کا معنی ’’جمہور سے الگ ہونے والا‘‘ ہے۔ ب:… اصطلاحی تعریف: (اصطلاحِ محدثین میں ) یہ وہ حدیث ہے جس کو ایک مقبول راوی اس حدیث کے خلاف روایت کرے جس کو اس سے مرتبہ میں فائق راوی نے روایت کیا ہو۔‘‘ [2] ۲۔ تعریف کی شرح: ’’مقبول‘‘ سے وہ راوی مراد ہے جو عادل ہو اور اس کا ضبط تام ہو یا عادل تو ہو چاہے ضبط کمزور ہو۔ اور اس سے فائق راوی سے مراد وہ راوی ہے جو ضبط کی زیادتی یا کثرتِ عدد یا دوسری وجوہ ترجیحات میں سے کسی ایک وجہ سے راوی مقبول سے زیادہ راجح ہو۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شاذ کی تعریف میں علماء کے متعدد اقوال ہیں مگر مذکورہ تعریف وہ ہے جسے حافظِ ابن حجر رحمہ اللہ نے پسند کیا ہے اور (اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) یہ کہا ہے ’’اصطلاح کے اعتبار سے شاذ کی یہی تعریف معتمد اور معتبر ہے۔‘‘ [3] ۳۔ شذوذ کہاں واقع ہوتا ہے؟ شذوذ سند میں بھی ہوتا ہے اور متن میں بھی (اس اعتبار سے شاذ کی دو قسمیں بن جاتی ہیں ’’شَاذُ السَّنَدِ‘‘ اور ’’شَاذُ الْمَتْنِ‘‘ ذیل میں دونوں میں سے ہر ایک کی مثال پیش کی جاتی ہے) الف:… سند میں شذوذ (یعنی شاذ السند) کی مثال: (اس کی مثال) وہ حدیث ہے جو ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ
[1] مؤلف موصوف نے منکر کے بیان میں یہ ’’ابو حاتم‘‘ کا قول قرار دیا جب کہ معروف کی مثال میں اسے ’’ابو حاتم‘‘ کے بیٹے کا قول قرار دے دیا ہے۔ بظاہر یہ تسامح ہے۔ درست کیا ہے؟ اس کے لیے ’’تدریب الراوی ج۱ ص۲۴۵‘‘ کی مراجعت کی جائے۔ بندہ عاجز کے پاس مذکورہ مآخذ موجود نہیں ۔ البتہ علامہ اسعدی نے بھی علوم الحدیث ص۱۹۲ میں اس کو ’’ابو حاتم‘‘ قول قرار دیا ہے۔ اور حوالہ ’’تدریب‘‘ کا ہی دیا ہے۔ اہلِ علم سے التجاء ہے کہ وہ اصل ماخذ کی مراجعت کرکے درست قول لے لیں ۔ بظاہر یہ ’’ابو حاتم‘‘ کا قول ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ [2] دیکھیں ’’النخبۃ مع شرحھا‘‘ ص۳۷ (طحّان) [3] النخبۃ مع شرحھا ص۳۷ (طحّان)