کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 139
ابن آدم جب ’’کچی پکی‘‘ کھجور کو (ملاکر) کھاتا ہے تو شیطان غصّہ سے بھڑک اٹھتا ہے۔‘‘
(یہ حدیث روایت کرنے کے بعد) امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، ’’یہ حدیث مُنکَر ہے کیوں کہ ابو زکیر اس کی روایت میں متفرد ہیں اور ابو زکیر نیکو کار بزرگ ہیں ، اگرچہ امام مسلم رحمہ اللہ نے متابعات میں ان کی روایات تخریج کی ہیں مگر (اس کے باوجود) یہ اس درجہ کے نہیں جن کے تفرد کو قبول کرلیا جائے۔‘‘ [1]
ب:… دوسری تعریف کے اعتبار سے حدیث منکر کی مثال: اس کی مثال وہ حدیث ہے جو ابن ابی حاتم نے حبیب بن حبیب زیّات سے روایت کی ہے جو یہ ہے:
’’ عن ابی اسحاق، عن العیزار بن حریث، عن ابن عباس، عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’مَنْ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکاۃَ وَحَجَّ الْبَیْتَ وَصَامَ وَقَرَی الضَیْفَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ‘‘
’’حبیب زیّات‘‘ ابو اسحاق سے، وہ عیزار بن حریث سے، وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو نماز ادا کرے اور زکوٰۃ دیتا رہے اور بیت اللہ کا حج کرے اور روزے رکھتا رہے اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرے وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
(اس روایت کی اسناد پر کلام کرتے ہوئے) ابو حاتم کہتے ہیں :
’’یہ حدیث مُنکَر‘‘ ہے کیوں کہ اس حدیث کو حبیب کے علاوہ دوسرے ثقہ راویوں نے بھی ابو اسحاق سے موقوفاً روایت کیا ہے اور وہ حدیث (اس موقوف اسناد کے ساتھ) ’’معروف‘‘ ہے (ناکہ منکر)۔‘‘ [2]
۴۔ حدیث منکر کا رتبہ:
منکر کی دونوں مذکورہ بالا تعریفوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حدیث منکر ’’بے حد ضعیف‘‘ حدیث کی ایک قسم ہے کیوں کہ حدیث منکر یا تو ایسے ضعیف راوی کی روایت ہوتی ہے جس میں زبانی اغلاط کی کثرت یا غفلت کی کثرت یا فسق جیسے عیوب پائے جاتے ہیں یا پھر یہ ایسے ضعیف راوی کی روایت ہوتی ہے جو اسی حدیث کی روایت میں ثقہ راویوں کی روایت کی مخالفت کر رہا ہوتا ہے۔
[1] بلکہ بعض ائمہ نے تو ان کو ضعیف اور غیر لائقِ احتجاج قرار دیا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۶۵ بحوالہ نزھۃ النظر ص۴۵ وتدریب الراوی ۱/۲۳۹۔۲۴۰) اور پہلی تعریف اور اس کی مثال میں تطبیق یوں ہے کہ مذکورہ روایت کی اسناد میں ابو زکیر ایک ایسا راوی ہے جو اس مرتبہ کا نہیں کہ روایتِ حدیث میں اس کے تفرد کو قبول کیا جاسکے اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے تفرد کی تصریح کی ہے۔ اس بنا پر یہ حدیث مُنکَر کہلائے گی کہ اس کی اسناد میں تفردِ روایت کے حق میں ایک نااہل راوی آگیا ہے۔ واللہ اعلم ۔
[2] تدریب الراوی ۱/۲۴۰ (طحّان)
اور دوسری تعریف کے مطابق مثال کے ساتھ تعریف کی مطابقت یوں ہے کہ اس کی اسناد میں ایک ضعیف راوی ہے جو ثقات کے مخالف روایت کر رہا ہے کہ ثقہ راوی کی حدیث معروف اور موقوف ہے اور ضعیف راوی کی حدیث منکر اور مرفوع ہے۔ واللہ اعلم۔