کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 137
۳… حدیث منکر جب راوی میں طعن کا سبب زبانی غلطی کی شدت، یا غفلت کی کثرت یا فسق (و کبائر کا ارتکاب) ہو تو ایسی حدیث کو ’’مُنکَر‘‘ کہتے ہیں اور یہ راوی میں طعن کا تیسرا، چوتھا اور پانچواں سبب ہے۔ [1] ۱۔ مُنکَرْ کی تعریف: الف:… لغوی تعریف: (لفظِ مُنکَر) یہ ’’انکار‘‘ مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور اس کا لغوی معنی ’’اقرار کی ضد‘‘ ہے۔ (یعنی وہ حدیث جس کا انکار کیا گیا ہو) ب:… اصطلاحی تعریف: علماء محدثین نے اس کی متعدد تعریفات بیان کی ہیں جن میں سے دو زیادہ مشہور ہیں ، جو یہ ہیں : ۱۔ یہ وہ حدیث ہے جس کی اِسناد میں ایک راوی ایسا ہو جو کثرت کے ساتھ زبانی غلطیاں کرتا ہو یا بہت زیادہ غفلت کا شکار رہتا ہو یا اس کا فاسق ہونا عالم آشکارا ہو گیا ہو۔[2] یہ تعریف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کی ہے مگر اس کو دوسرے کی طرف منسوب کیا ہے[3] اور اسی تعریف کو علامہ عمر بن محمد بیقونی رحمہ اللہ (متوفی ۱۰۸۰ھ) نے اپنے منظوم رسالہ ’’المنظومۃ البیقونیۃ‘‘ میں اختیار کیا ہے، چناں چہ وہ کہتے ہیں : وَمُنْکَرٌ اِنْفَرَدَ بِہٖ رَاوٍ غَدًا تَعْدِیْلُہٗ لَا یَحْمِلُ التَّفَرُّدًا اور ’’مُنْکَر‘‘ وہ حدیث ہے جس کو روایت کرنے والا ایک راوی ہو اور وہ ایسا ایک راوی کہ اس کی تعدیل اس کے تفرد کا تحمل نہ کرسکے (یعنی اس راوی کی عدالت ایسی ہو کہ اس کے تفرد کو احادیث میں قبول نہ کیا جاتا ہو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس حدیث کا راوی اعتماد اور اعتبار میں اس درجہ کا نہ ہو جس کے تفرد کو قبول کیا جاسکے)۔ ۲۔ منکَر وہ حدیث ہے جس کو ایک ضعیف راوی اس حدیث کے خلاف روایت کرے جسے ایک ثقہ راوی روایت
[1] چوں کہ ان تینوں اسبابِ طعن پر مشتمل احادیث کا ایک ہی نام ہے اور وہ ہے ’’منکر‘‘ اس لیے ان تینوں اسباب کو گزشتہ متن میں مذکورہ اسباب کی ترتیب سے ہٹ کر تفصیل بیان ہوتے وقت تشکیل پانے والی ترتیب کے تحت تیسرا چوتھا اور پانچواں سبب کہہ دیا۔ وگرنہ ’’فسق‘‘ اسبابِ طعن متعلق بعدالت میں سے تیسرا، فحش غلطی متعلق بہ ضبط میں سے پہلا اور غفلت کی کثرت متعلق بعدالت میں تیسرا سبب ہے۔ فقط واللہ اعلم۔ [2] یہ تعریف ہی مذکورہ مبحث اور اسبابِ طعن کے زیادہ مناسب ہے۔ جب کہ دوسری تعریف جو اوپر متن میں آرہی ہے، کا بظاہر زیادہ تعلق طعن کے ساتویں سبب ’’مخالفت ثقات‘‘ سے ہے جیسا کہ آگے آجائے گا۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۶۵ ملخصاً) [3] دیکھیں ’’النخبۃ وشرحھا ص۴۷ (طحّان) یعنی علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے متنِ نخبۃ میں یہ تعریف ذکر کرکے شرح میں اس کی نسبت اوروں کی طرف کردی ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۶۶)