کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 136
خلاف ہو۔ [1] ۲۔ دوسرا یہ کہ وہ راوی اپنی روزمرہ کی گفتگو میں تو جھوٹ بولنے کی بابت مشہور ہو مگر اس سے کسی حدیث میں جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو۔[2] ۳۔ حدیث متروک کی مثال: اس کی مثال ’’عمرو بن شَمِر جُعفی کوفی‘‘ کی یہ حدیث ہے: ’’عن جابر ، عن ابی الطفیل عن عليّ وعمّار قالا، ’’ کَانَ النَّبِیُّ یَقْنُتُ فِی الْفَجْرِ وَیُکَبِّرُ یَوْمَ عَرَفَۃَ مِنْ صَلٰوۃِ الْغَدَاۃِ وَیَقْطَعُ صَلٰوۃُ الْعَصْرِ اٰخِرَ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ۔‘‘ ’’عمر و کوفی، جابر سے، وہ ابو طفیل سے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں : یہ دونوں صحابی فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر میں قنوت پڑھا کرتے تھے اور عرفہ کے دن فجر کی نماز سے ہی تکبیر پڑھتے تھے اور ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز میں تکبیر کہنا ختم کر دیتے تھے۔‘‘ (اس حدیث کی اسناد میں ) عمرو بن شَمِر کوفی (ہے، اس) کے بارے میں امام نسائی، دارِ قطنی اور دوسرے (معتمد اور محقق) محدثین یہ کہتے ہیں کہ (عمرو بن شمِر) ’’متروک الحدیث‘‘ ہے۔ [3] ۴۔ حدیثِ متروک کا مرتبہ: گزشتہ میں بیان کیا جاچکا ہے کہ ضعیف حدیث کی بدترین قسم ’’موضوع‘‘ ہے اور اس کے بعد متروک کا درجہ ہے، پھر مُنْکَر ہے، پھر مُعَلَّل، پھر مُدرَج، پھر مَقْلُوْب اور پھر مُضْطَرِب ہے۔ ان احادیث میں یہ درجہ بندی حافظِ ابن حجر رحمہ اللہ نے کی ہے۔ [4]
[1] ’’قواعد معلومہ‘‘ سے مراد وہ قواعدِ عامہ ہیں جن کو حضرات علماء نے عام نصوصِ صحیحہ کے مجموعہ سے مستنبط کیا ہو جیسے یہ مشہور قاعدہ ’’الاصل براۃ الذمۃ‘‘ (یعنی معاملات میں اصل کسی شخص کا کسی ذمہ سے بری ہونا ہے)(طحّان) اسی طرح یہ مشہور قاعدہ ’’الغُرم بالغُم‘‘ یعنی ’’چٹی بھی وہی بھرے گا جو فائدہ اٹھائے گا‘‘ وغیرہ ۔ [2] لیکن اگر ایسا راوی اپنی روزمرہ گفتگو میں جھوٹ نہیں بولتا تو اس کی حدیث مقبول ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۶۳) [3] میزان الاعتدال ۳/۲۶۸(طحّان)اور ’’متروک الحدیث‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حدیث جھوٹ کی تہمت کی بنا پر غیر مقبول ہے (علوم الحدیث، ص: ۱۶۳۔۱۶۴) [4] دیکھیں تدریب الراوی ۱/۲۹۵، نخبۃ وشرحھا ص۴۶ ومابعدھا (طحّان) مولف موصوف نے حدیثِ متروک کا حکم نہیں بیان کیا، اس حدیث کا حکم یہ ہے کہ اگر راوی اپنی اس حرکت سے توبہ کرلے تو اس کی جو روایات قواعد معلومہ عامہ مستنبطہ کے خلاف نہ ہوں وہ مقبول ہوں گی۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۶۴ ملخصاً وزیادۃٍ)بحوالہ مقدمہ عبدالحق دہلوی)