کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 135
میں متساہل ہیں ۔ اسی لیے متاخرین علماء نے ان پر (اور ان کی کتاب پر سخت) تنقید کی ہے اور ان کی فرو گزاشتوں کا تعاقب کیا ہے۔
ب:… اللائی المصنوعۃ فی الاحادیثِ الموضوعۃ: یہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ جیسی قد آور شخصیت کا علمی شاہکار ہے۔ جو دراصل علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کی کتاب کا اختصار ہے۔ اس میں علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کی فرو گزاشتوں کا تعاقب (ان کے تساھلات پر تنقید) اور ان احادیث کا اضافہ ہے جو علامہ سے ذکر ہونے سے رہ گئی تھیں ۔ (گویا کہ یہ کتاب اضافہ و اختصار اور تنقید و تعقیب کا حسین مجموعہ ہے)۔
ج: … تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ: یہ ابن عراقی کتانی متوفی ۹۶۳ھ کی تالیف ہے جو مذکورہ بالا دونوں کتابوں کی تلخیص ہے۔ یقینا (اپنی حسن و خوبی کے اعتبار سے) یہ ایک جامع مرتب اور مفید کتاب ہے۔
(۲) حدیث متروک[1]
جب راوی میں طعن کا سبب ’’جھوٹ کی تہمت‘‘ ہو تو ایسی حدیث کو (اصطلاحِ محدثین میں ) ’’متروک‘‘ کہتے ہیں اور یہ راوی میں طعن کا دوسرا سبب ہے (جس کا تعلق راوی کی عدالت یعنی اسباب طعن کی پہلی قسم سے ہے)۔
۱۔ متروک حدیث کی تعریف:
الف: …لغوی تعریف: لفظ ’’متروک‘‘ ’’التَّرْک‘‘ مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ ہے(جس کا لغوی معنی ہے چھوڑا ہوا)۔ اور جب بچہ انڈے سے نکل آتا ہے تو عرب اس (انڈے کے خالی رہ جانے والے خول) کو ’’اَلتَّرِیْکَۃُ‘‘ بمعنی ’’متروکہ‘‘ (یعنی چھوڑا ہوا) کہتے ہیں ، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔[2]
ب: …اصطلاحی تعریف: (اصطلاحِ محدثین میں ) یہ وہ حدیث ہے جس کی اسناد میں کوئی راوی ایسا ہو جس پر دروغ گوئی کی تہمت ہو۔ [3]
۲۔ راوی پر کذب بیانی کی تہمت کے اسباب (یعنی راوی کے ’’متھم بالکذب‘‘ ہونے کے اسباب):
راوی کے متّھم بالکذب ہونے کے اسباب دو میں سے ایک ہیں ، جو یہ ہیں :
۱۔ مذکورہ حدیث صرف اس راوی سے ہی مروی ہو اور وہ (قرآن و حدیث سے مستنبطہ) معلوم قواعد و ضوابط کے
[1] حدیث کی اس نوع کو سب سے پہلے علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’نخبۃ الفکر‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے علامہ ابن صلاح اور علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے (اپنی اپنی کتب میں حدیث کی) اس (قسم) کو ذکر نہیں کیا۔ (طحّان)
[2] دیکھیں ’’القاموس المحیط لفیروزآبادی‘‘ ۳/۳۰۶‘‘ (طحّان)
[3] ’’نخبۃ الفکر و شرحھا نزھۃ النظر ص۴۷‘‘ (طحّان)