کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 134
چہار دانگ عالم میں اپنا نور پھیلانے کے لیے ان جھوٹوں اور دجالوں کی محتاج نہیں ۔ یقینا یہ گمان فاسد اہل اسلام کے اجماع کے خلاف ہے [1] اور امام الحرمین شیخ ابو محمد جوینی تو اس باب میں اسقدر مبالغہ فرمایا کرتے تھے کہ وہ ان جعل سازوں کو بالیقین کافر کہتے تھے۔[2]
۸۔ بعض مفسرین کا غلطی سے اپنی تفاسیر میں موضوع احادیث شامل کرنا:
بعض مفسرین نے اس غلطی کا ارتکاب کیا کہ انہوں نے بعض موضوع احادیث کو ان کے وضع پر صراحت کیے بغیر، اپنی تفاسیر میں شامل کرلیا خصوصاً ، وہ احادیث جو قرآنِ کریم کی ہر ہر سورت کے فضائل کی بابت حضرتِ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہیں ۔ ایسے متساہل مفسرین میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں :
(۱) ثعلبی (۲) واحدی
(۳) زمخشری (۴) بیضاوی
(۵) اور شوکانی[3]
۹۔ موضوع احادیث پر مشہور تالیفات:
الف: …’’کتاب الموضوعات‘‘ یہ عبدالرحمن ابن جوزی رحمہ اللہ متوفی ۵۶۰ھ کی یادگار تصنیف ہے اور اس فن میں قدیم ترین کتاب ہے (جس کو مصدرِ اوّل کہنا بے جا نہ ہو گا) البتہ ابن جوزی رحمہ اللہ بعض احادیث پر وضع کا حکم لگانے
[1] کرامیہ کے ہی قریب قریب آج بھی ایک مذہبی فرقہ پایا جاتا ہے کہ جب ان کے باطل عقائد کی تردید میں قرآن و حدیث کے قطعی دلائل پیش کئے جاتے ہیں تو وہ اپنی تائید میں یہ سخیف اور بودی دلیل پیش کرتے ہیں ، ’’آپ یہ دیکھیں کہ اللہ ان لوگوں سے کام کتنا لے رہا ہے اور انہوں نے زمین کے چپّے چپے پر پھر کر دین پھلانے کے لیے کتنی محنت کی ہے‘‘ ’’اعاذنا اللّٰہ من سوء الفھم وسفساف الامور وان اللّٰہ غَنِيٌّ عن العالمین‘‘
[2] اور امام الحرمین کے نزدیک یہ جُرم اس قدر گھناؤنا ہے کہ اگر کسی سے ایک مرتبہ اس فعلِ شنیع کا ارتکاب ثابت ہو جائے تو تمام عمر اس کی روایت مردود ہوگی اور تو اور توبہ بھی کرلے تب بھی اس کے حق میں یہی حکم ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۵۶ بتصرفٍ وزیادۃ بحوالہ مقدمۃ عبدالحق دہلوی) علامہ اسعدی نے اس مقام پر وضع احادیث کے چند اور اسباب و محرکات بھی لکھے ہیں مثلاً (۱) اصحابِ افتاء کا اپنی فتاویٰ کی تائید میں احادیث گھڑنا جیسے ابو الخطاب ابن دحیہ کرتا تھا۔ (۲) بعض لوگوں کے مسودات میں ان شاگردوں ، زیرِ کفالت افراد یا اولاد کا موضوع احادیث کو شامل کردینا اور ان کا ان احادیث کو صحیح سمجھ کر روایت کردینا۔ جیسے حماد بن سلمہ کے ساتھ ہوا۔ (۳) اور کبھی کسی حاجت نے خواہ دینی تھی یا دنیاوی اس فعلِ مکروہ پر ابھارا۔ (علوم الحدیث مخلّصاً ص۱۶۰۔۱۶۱)
[3] لیکن اس تفصیل سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ قرآن کی بابت مروی جملہ فضائل ہی موضوع ہیں ، صحیح نہیں بلکہ فضائلِ سؤر کا ایک بہت بڑا حِصّہ صحیح احادیث پر مبنی ہے۔ اس کے لیے کسی امامِ فن اور نقاد محدث و مفسر کی تحقیق و تصریح کی حاجت ہے۔ اور اس کی رہنمائی کے لیے سب سے معتمد و معتبر مأخذ امام ابن کثیر کی شہرئہ آفاق تالیف ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ ہے۔ یاد رہے کہ وضع احادیث کا تعلق صرف تفسیر سے ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر اس کا تعلق اقوام و افراد کی منقبت و مذمت، انبیاء سابقین کے قصّوں ، بنی اسرائیل کے احوال، کھانے پینے کی چیزوں جانوروں ، جھاڑ پھونک، دعااور نوافل کے اجر و ثواب سے ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۶۱ ملخصاً)