کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 132
اس مذموم مقصد کے حصول کے لیے ان نامرادوں نے یہ خبیث اور کمینہ راستہ اختیار کیا۔ چناں چہ ان لوگوں نے اسلام پر زبانِ طعن دراز کرنے (اسلام کے خلاف دامِ ہم رنگِ زمین بچھانے، سینوں میں اسلام کے خلاف حسد اور نفرت کی آگ بجھانے) اور اسلام کے صاف اور روشن چہرہ کو بدنما اور داغ دار بنانے (اور درپردہ بغض و عداوت کی سرانڈ نکالنے کے لیے) بے شمار احادیث گھڑیں ۔ انہی بے دین زندیقوں میں ایک نمایاں نام ’’محمد بن سعید شامی‘‘ کا بھی ہے جس پر زندیقیت کی یہی فردِ جرم عائد کرتے ہوئے اسے پھانسی کے پھندے پر جھُلا دیا گیا تھا۔ اِسی (بدبخت) نے (مدعیانِ نبوت کے دجّالوں کو دائرہ اسلام میں قدم رکھنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے) حمید کے واسطے سے حضرتِ انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً یہ حدیث نقل کی ہے (جسے پڑھ کر غلام احمد قادیانی نے بھی کور چشمی کے ساتھ بے سوچے سمجھے نبوت کا دعویٰ کرکے خود کو نذرِ آتشِ جہنم کردیا) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ اِلَّا اِنْ شَائَ اللّٰہُ۔‘‘ [1] ’’میں سب نبیوں پر مہر لگانے والا ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر اللہ چاہے تو۔‘‘ (مگر علماء نے اسلام کی پیٹھ میں پیوست کیے جانے والے اس خنجر اور توحید و رسالت کی مضبوط دیوار میں لگائی جانے والی اس نقب کا سخت ترین محاسبہ کیا اور بالآخر اس فتنہ کو پیوندِ خاک کرکے چھوڑا) چناں چہ نقاد محدثین نے احادیث کے ان کھوٹے سکوں کو سب پر آشکارا کردیا۔ ’’سب تعریفیں اسی اللہ کی ہیں ، اسی کا سارا احسان ہے! ۴۔امراء وسلاطین کا تقرب (اور ان کی چاپلوسی اور خوشامد پرستی): یعنی بعض کمزور ایمان لوگوں نے حکام وقت کی بے دینیوں اور مذہبی انحرافات کے مناسب (دوسرے لفظوں میں ان کے غیر شرعی رجحانات اور ناجائز کاموں کو سندِ جواز فراہم کرنے کے لیے) احادیث گھڑیں ۔ اس کی نہایت دلچسپ مثال امیر المومنین (عباسی خلیفہ) مہدی اور غیاث بن ابراھیم نخعی کوفی کا قصّہ ہے۔ ہوا یوں کہ ایک دفعہ غیاث امیر المؤمنین مہدی سے ملنے گیا۔ اتفاق سے اس وقت خلیفہ صاحب کبوتر بازی میں مشغول تھے۔ (موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کہ یہی وقت خلیفہ کی خوش نودی حاصل کرنے کا ہے) غیاث نے فوراً ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک سندِ متصّل کے ساتھ ایک حدیث گھڑ کے سنادی کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لَا سَبَقَ اِلاَّ فِی نَصْلٍ، اَوْ خُفٍّ اَوْ حَافِرٍ اَوْ جَنَاحٍ۔‘‘ ’’شرط لگانا (جائز) نہیں مگر صرف تیر اندازی میں یا اونٹ یا گھوڑے دوڑانے میں یا کبوتر بازی میں ۔‘‘ اس حدیث میں غیاث نے خلیفہ کی (چاپلوسی) کے لیے ’’اَوْ جَنَاحٍ‘‘ کے الفاظ بڑھا دیئے مگر خلیفہ (چوں کہ خود بھی صاحبِ علم تھا اور علماء کی مجالس میں بھی بیٹھتا تھا اس لیے اس) نے بھی اس کا ارادہ بھانپ لیا اور ان کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور (اپنے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے) کہنے لگا: ’’میں نے ہی غیاث کو اس (فعل بد) پر ابھارا۔‘‘
[1] تدریب الراوی ۲۸۴۱ (طحّان)