کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 131
۶۔ ’’جعل سازی‘‘ کے اسباب و محرکات اور ’’جعل سازوں ‘‘ کی اقسام: حدیث گھڑنے کے متعدد اسباب ہیں جنہوں نے ان جعل سازوں کو اس نامشکور کام پر ابھارا۔ ہم ان میں سے چند اہم اور نمایاں اسباب کو ذیل میں ذکر کرتے ہیں : ۱۔ تقرب الی اللہ[1]:… (یعنی رب تعالیٰ کی خوش نودی اور قرب چاہنے کے لیے حدیثیں گھڑنا) اور اس کی صورت یہ ہے کہ لوگوں کو نیکیوں پر آمادہ کرنے کے لیے اور منکرات کے ارتکاب سے ڈرانے کے لیے حدیثیں گھڑی جائیں ۔ یہ ’’جعل سازوں ‘‘ کی وہ جماعت ہے جو زھد و تقویٰ اور (درویشی، فقیری اور) نیکی کی طرف منسوب ہے مگر (درحقیقت) یہ بدترین ’’جعل ساز‘‘ ہیں کیوں کہ لوگ (ان کی بزرگی، درویشی، دنیا سے بے رغبتی، زھد و عبادت اور نیکی دیکھتے ہوئے) ان پر اعتبار کرکے ان کی موضوع احادیث کو قبول کر لیتے ہیں۔[2] انہی بدترین جعل سازوں میں سے ایک میسرہ بن عبدربہ بھی ہے جس کی بابت امام ابن حبّان رحمہ اللہ ’’کتاب الضعفاء‘‘ میں ابن مہدی سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مہدی کہتے ہیں ، ’’میں نے میسرہ سے پوچھا، ’’تم یہ حدیثیں کہاں سے لائے ہو کہ جس نے فلاں فلاں سورت پڑھی اس کو اتنا اتنا اجر ملے گا (وغیرہ وغیرہ) ؟ تو اس نے (بڑی بے باکی سے جواب دیتے ہوئے) کہا ’’میں نے یہ حدیثیں (کہیں سے سنی نہیں بلکہ خود) گھڑی ہیں تاکہ لوگوں کو (قرآن کی کثرت کے ساتھ تلاوت کرنے پر) ابھاروں ۔‘‘[3] ۲۔ مذہب کی (بے جا حمایت و ) تائید: [4] خاص طور پر سیاسی فرقوں کے مذاہب کی تائید (کے لیے احادیث گھڑنا) اور ایسا اس وقت ہوا جب فتنوں نے سر اٹھایا اور کئی سیاسی فرقے پیدا ہو گئے۔ جیسے خوارج اور شیعہ وغیرہ۔ چناں چہ ان میں سے ہر ایک فرقہ نے اپنے اپنے مذہب (کے نظریہ) کی نصرت و حمایت کے لیے حدیثیں گھڑیں جیسے رافضیوں کی یہ حدیث: ’’عَلِيٌّ خَیْرُ الْبَشَرِ ، مَنْ شَکَّ فِیْہِ کَفَرَ‘‘ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے بہتر انسان ہیں جو اس میں شک کرے وہ کافر ہے۔‘‘ ۳۔ اسلام پر طعنہ زنی[5] (کرنے کے لیے حدیثیں گھڑنا): یہ ’’جعل سازوں ‘‘ کا وہ ’’زندیق‘‘ ٹولہ ہے جو کھلے بندوں تو اسلام کے خلاف مکر و فریب کے جال نہ بُن سکا البتہ
[1] بعض علماء نے اسے ’’غلبہء جہل‘‘ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ (علوم الحدیث ص۱۵۸) [2] اس اندھے اعتماد اور بھروسہ کی بدترین شکل وہ ہوتی ہے جب ان نام نہاد بزرگوں کے متبعین قرآن و حدیث کے صریح مضامین سامنے آجانے پر بھی ایک نہایت پتھریلی اور تاریک آواز کے ساتھ یہ کہتے سنے جاتے ہیں ’’ہمیں تو ہمارے بزرگوں نے یوں ہی کہا ہے ہم تو اسی کو مانیں گے۔‘‘ [3] تدریب الراوی ۱/ ۲۸۳ (طحّان) [4] اسے ’’زیادتِ تعصب‘‘ کا بھی عنوان دیا گیا ہے ۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۰۹… ) [5] اسے ’’بے دینی‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۵۹)