کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 130
و غریب فضائل) وضع کیے ہیں ۔[1] ب:… یا ’’جعل ساز‘‘ کوئی ایسی بات کرے جو بمنزلہ اقرار کے ہو: مثلاً وہ ایک شیخ سے حدیث بیان کر رہا ہو مگر جب اس اس سے مذکورہ شیخ کی تاریخِ ولادت کے بارے میں پوچھا جائے تو (اپنی رسوائی اور جگ ہنسائی کا سبب خود پیدا کرتے ہوئے) اس کی تاریخِ ولادت وہ بتلائے کہ اس سے پہلے وہ شیخ اس دارِ فانی کو الوداع بھی کہہ چکا ہو (اور یہیں سے اس کا جھوٹ پکڑا جائے کہ کیا کوئی شخص اپنی وفات کے بعد بھی پیدا ہوا کرتا ہے) اور (دوسرا المیہ یہ ہو کہ) وہ حدیث بھی صرف اسی شیخ سے معروف ہو (تو اب اس حدیث کا موضوع ہونا اور بھی زیادہ پکا ہو گیا)۔ ج:… یا خود راوی میں (جعل سازی کا) کوئی قرینہ ہو: مثلاً راوی رافضی ہو اور (اس کی روایت کردہ) حدیث کا تعلق فضائل اہلِ بیت سے ہو۔ [2] د:… یا خود روایت میں (اس کے موضوع اور جعلی ہونے کا) کوئی قرینہ ہو: (یاد رہے کہ ’’جعل سازی‘‘ پہچاننے کے اس طریق کا تعلق تائیدِ الٰہی، نورِ بصیرت و فراست، خداداد ذہانت و ذکاوت، ذوقِ سلیم ، لسانِ نبوت کی نزاکتوں ، لطافتوں ، خوبیوں ، باریکیوں اور گہرائیوں سے گہری واقفیّت، عقلِ رساء، عالمانہ، محدثانہ، فقیہانہ اور مجتہدانہ کامل استعداد اور وفور علم سے ہے، یہ ہر کس و ناکس کا کام نہیں ۔ بہرحال خود روایت میں اس کے جعلی ہونے کا قرینہ ہو) مثلاً (مذکورہ) حدیث کے الفاظ بڑے بودے، کمزور، پھُس پھسے اور گھٹیا ہوں [3] (جو عامیانہ فصاحت و بلاغت کے معیار سے بھی گرے ہوں چہ جائیکہ ختمی المرتبت، صاحبِ جوامع الکلم و سبعِ مثانی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ کی بلندیوں کی ہم سری کریں اور منصبِ نبوت کے شایانِ شان ہوں ) یا وہ الفاظ حسّ و شعور کے مخالف ہوں یا قرآنِ کریم کے (قطعی مضامین کے) صریح خلاف ہوں ۔[4]
[1] فضائل وضع کرنے میں ہمارے اس دور کی ایک ’’خانہ بدوش‘‘ مبلغ جماعت نے سب کو شکست فاش دے کر تاریخ کی بساط کو الٹ کر رکھ دیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ اس ’’کا رِبد‘‘ میں گزشتہ یا آئیندہ زمانہ میں کوئی بھی اس عجوبہء روزگار جماعت کے قدموں کی خاک تک نہیں ۔ [2] کہ اب خود راوی کا تعلق بھی ایک خاص عقیدہ و مذہب سے ہے جس میں بعض صورتوں میں ’’دروغ گوئی‘‘ کائنات کی سب سے بڑی نیکی ہوتی ہے۔ جسے رافضی ’’تقیّہ‘‘ کے مکروہ ترین نام سے یاد کرتے ہیں اور مذکورہ حدیث بھی ان کے مذہب و عقیدہ کی ترجمان ہے۔ تو اب اس حدیث کے ’’جعلی‘‘ ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ (از علوم الحدیث ص۱۵۷ بزیادۃ کثیرۃٍ) [3] بقولِ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ : محض الفاظ کی رکاکت حدیث کے جعلی ہونے کا قرینہ نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ روایت بالمعنی میں الفاظ بدل ہی جاتے ہیں اور ان کا معروف معیار باقی نہیں رہتا البتہ صرفی نحوی غلطیاں اس کے تحت ضرور داخل ہیں ۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۵۷) [4] اسی طرح حدیث کا وہ مضمون بھی اس حکم کے تحت داخل ہے جو سنتِ متواترہ، اجماعِ قطعی اور مشہور تاریخی واقعات کی مخالفت پر مشتمل ہو اور اس کی کوئی مناسب توجیہہ اور تاویل نہ ہو سکے۔(الاسعدی) ان کے علاوہ درج ذیل امور سے بھی حدیث کے جعلی ہونے کو معلوم کیا جاسکتا ہے:(۱)امرِ منقول ایسا ہو کہ حالات و قرائن کے تقاضا سے پوری جماعت کو اس کا ناقل ہونا چاہیے۔ (۲) یا وہ دین کی ایک اصل ہو اور اسے نقل کرنے والے حدِ تواتر سے کم ہوں یا صرف ایک آدمی ہو۔ (۳) کسی معمولی چیز پر وعیدِ شدید کی دھمکی یا اجرِ عظیم کا وعدہ ہو۔ یاد رہے کہ بعض قرائن ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی بنا پر ایک متواتر منقول امر پر بھی وضع کا حکم لگ جاتا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۵۶۔۱۵۷ بتصرفٍ وزیادۃٍ)