کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 128
(۱) حدیثِ موضوع[1]
جب راوی میں طعن کا سبب اس کا جناب رسالت مآب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم پر دروغ گوئی ہو تو ایسے راوی کی حدیث کو ’’موضوع‘‘ (یعنی گھڑی ہوئی بات) کے (بدنامِ زمانہ) نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
۱۔ حدیثِ موضوع کی تعریف:
الف:… لغوی تعریف: (لغت میں ) لفظ ’’موضوع‘‘ ’’وَضَع الشَّیْئَ‘‘ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا مطلب کسی شی کا مرتبہ گھٹانا ہے۔ اور حدیث موضوع کا یہ نام اس کے گرے ہوئے مرتبہ کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔
ب:… اصطلاحی تعریف: اور اصطلاح میں ’’موضوع‘‘ اس جھوٹ کو کہتے ہیں جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دامنِ صدق و صداقت پر گھڑ کے اور تیار کرکے دھر دیا جائے۔[2]
۲۔ حدیث موضوع کا مرتبہ:
یہ ضعیف احادیث کی بدترین اور گھناؤنی ترین قسم ہے۔ جب کہ بعض علماء نے اسے احادیث ضعیفہ کی ایک قسم نہیں بلکہ ایک مستقل قسم قرار دیا ہے۔[3]
۳۔ موضوع حدیث کے روایت کرنے کا حکم:
(حضرات محدثین اور جملہ فقہاء) علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کو بھی کسی حدیث کے موضوع ہونے کا علم ہو، خواہ (وضع کی نوعیت کیسی ہی ہو اور چاہے) وضع کا تعلق کسی بھی مسئلہ اور مضمون سے ہو (اور چاہے اس مسئلہ کی نوعیت کسی بھی درجہ کی ہو خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا فرائض و واجبات سنن و مستحبات اور مباحات سے ہو۔ بہرحال وضع کا علم ہونے کے بعد) اسے وہ حدیث اس کے موضوع ہونے کی تصریح کیے بغیر بیان کرنا جائز نہیں ۔[4] (اور علماء
[1] مناسب تو یہ تھا کہ راوی میں طعن کے دونوں اسباب کی جملہ اقسام کی تفصیل اسی ترتیب سے بیان کی جاتی جو مؤلف موصوف نے اجمالی تعارف میں ذکر کی ہے۔ لیکن اجمال کے بعد تفصیل میں جاتے ہوئے مؤلّف موصوف نے ترتیب میں تبدیلی کردی ہے کہ بعض انواع کا ذکر پہلے کردیا ہے جب کہ بعض کا بعد میں اس کو اصطلاح بیان میں ’’لف و نشر غیر مرتب‘‘ کہتے ہیں ۔ جیسا کہ خود قارئین ملاحظہ کریں گے۔ بندہ مترجم گاہ گاہ ترتیب کی اس تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا رہے گا۔
البتہ شاید مولف موصوف نے اجمال کی تفصیل میں طعن کے مراتب کو ملحوظ رکھا ہے۔ جِس سے ترتیب میں تغیّر آنا بھی بدیہی امر تھا۔ فقط واللہ اعلم۔
[2] تدریب الراوی ۱/۲۷۴ (طحّان)
[3] اور اس کی وجہ صاف اور بے غبار ہے کہ حدیث موضوع کا مضمون ’’حدیث‘‘ ہوتا ہی نہیں سوائے ایک صورت کے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ اس میں بھی اس کے حدیث ہونے کا وہم ہوتا ہے ناکہ گمانِ غالب اور ’’واضع‘‘ (حدیث گھڑنے والا) اس وہم کا درجہ بڑھانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اسے حدیث بنادیتا ہے۔ (اعاذنا اللہ من شرّ ذلک) (علوم الحدیث، ص: ۱۵۶ بتصرفٍ وزیادۃ کثیرۃٍ)
[4] علماء اور فقہاء کا یہ اجماع ان نام نہاد واعظین اور مبلغین کے لیے مقامِ غور اور باعثِ عبرت ہے جو محض حصولِ زر، گرمیء محفل اور وقتی شہرت کے لیے بے محابا موضوع احادیث سناتے ہیں اور ’’عوام کالانعام‘‘ سے دادِ تحسین کے ساتھ ساتھ داد و دہش بھی لیتے ہیں ۔ ’’ثمنِ قلیل‘‘ کے بدلے آیات اللہ کی یہ خرید و فروخت روزِ محشر بدترین رسوائی کا سبب ہوگی۔ اللھم احفظنا منہ۔