کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 127
مقصد سوم اُس حدیث کا بیان جو راوی میں طعن کے سبب سے مردود ہو ۱۔ راوی میں طعن سے کیا مراد ہے؟ راوی میں طعن سے یہ مراد ہے کہ اس کی عدالت (یعنی دین کے معاملہ میں اس کے لائق اطمینان ہونے) اور اس کے دین کے حق میں یا اس کے حفظ و ضبط کے بارے میں کلام کیا جائے اور زبان سے اس کو مجروح قرار دیا جائے (یعنی زبان سے اس کی عیب جوئی کی جائے)۔ ۲۔ راوی میں طعن کے اسباب (کیا اور کتنے ہیں ؟): (حضرات محدثین اور علماء کے بقول) راوی میں طعن کے اسباب دس ہیں جن میں سے پانچ کا تعلق اس کی عدالت سے اور دوسرے پانچ کا تعلق اس کے ضبط سے ہے۔ (ان کو ذیل میں تقسیم کرکے بیان کیا جاتا ہے) الف:… وہ اسباب جن کا تعلق راوی کی عدالت میں طعنِ سے ہے، یہ ہیں : (۱) کذب (۲) تہمت کذب (۳) فسق (۴) بدعت (۵) جہالت (یعنی جہالت عین) ب:… وہ اسباب جن کا تعلق راوی کے ضبط میں طعن سے ہے، یہ ہیں : (۱) زبانی غلطی کی شدّت (۲) حافظہ کی خرابی (۳) غفلت (۴) کثرتِ اوہام (۵) مخالفتِ ثقات (ان دس اقسام میں سے ہر ایک کا مستقل عنوان آگے تفصیل میں آجائے گا یاد رہے کہ احادیث کی ان اقسام میں مراتب کا لحاظ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ہے۔ ) آگے چل کر ہم ان مذکورہ اسباب میں سے کسی ایک سبب سے مردود ہونے والی احادیث کی اقسام کو تسلسل (اور ترتیب) کے ساتھ بیان کریں گے اور ان اقسام کا آغاز ہم سب سے زیادہ سخت سببِ طعن سے کریں گے۔ اور وہ’’کذب‘‘ یعنی جھوٹ بولنا ہے۔