کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 122
روایت کرے جو ’’سماع‘‘ (پر دلالت کرنے) کا احتمال رکھتے ہوں جیسے ’’قَالَ‘‘ (وغیرہ کے الفاظ) [1] ۲۔ مرسَل خفی کی مثال : اس کی مثال ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جو انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کے طریق سے بواسطہ عقبہ بن عامر مرفوعاً روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ، ’’رَحِمَ اللّٰہُ حَارِسَ الْحَرَسِ‘‘[2]’’رب تعالیٰ فوجی دستہ کی نگہبانی کرنے والے پر رحم فرمائے۔‘‘ (اِس حدیث میں ارسال اس لیے پایا جاتا ہے) کیوں کہ عمر بن عبدالعزیز کی عقبہ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ جیسا کہ مزّی نے ’’اطراف‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ ۳۔ ارسالِ خفی کو کیوں کر پہچانا جاسکتا ہے؟ ارسالِ خفی کو مذکورہ ذیل تین امور میں سے کسی ایک کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے: الف:… کسی امامِ فن حدیث کا صراحت کرنا کہ (ارسال کرنے والے) اِس راوی کی اُس راوی سے ملاقات ثابت نہیں جس سے یہ حدیث بیان کر رہا ہے یا اس نے اپنے شیخ سے مطلق نہیں سنا۔ ب:… راویء مرسِل کا خود (اپنے بارے میں یہ) بتلادینا کہ اس کی اپنے شیخ سے ملاقات ثابت نہیں یا یہ کہنا کہ اس نے اپنے شیخ سے کچھ نہیں سنا۔ ج:… حدیث مرسَل کا کسی ایسے دوسرے طریق سے مروی ہونا جس میں راویء مرسِل اور اس کے شیخ جس سے وہ روایت کر رہا ہے، کے درمیان راوی مذکور ہو۔ویسے اس تیسرے امر کی بابت علماء میں اختلاف ہے۔ کیوں کہ یہ خود ایک مستقل قسم ہے جس کا نام ’’المزیدُ فی متّصل الاسانید‘‘ ہے۔ [3] ۴۔ مرسل خفی کا حکم: (محدثین کے نزدیک) یہ حدیث ضعیف ہے، کیوں کہ یہ بھی حدیث منقطع کی ایک قسم ہے۔ پس جب اس کا انقطاع (راویٔ مرسِل کی تصریح یا امامِ فن کی تحقیق سے) ظاہر ہو جائے گا تو اس کا حکم حدیث منقطع کا حکم ہوگا۔ ۵۔ مرسَل خفی کی بابت مشہور تصنیفات: اس باب میں خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی کتاب ’’التّفصیل لِمُبْھَمِ الْمَرَاسِیِلِ‘‘ کو خاص شہرت حاصل ہے۔
[1] ’’شرح الفیۃ العراقی لہ‘‘ ۱۸۰۱ نقلاً عن ’’ بیان الوھم والا یھام‘‘ لابی الحسن بن قطان (طحّان) بظاہر تدلیس اور ارسالِ خفی یکساں معلوم ہوتے ہیں مگر ان دونوں کے درمیان فرق ہے جس کو علماء نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:(۱) ابن قطان کہتے ہیں ’’مرسَل اس شخص کی روایت ہے جس کا اس شخص سے سماع ثابت نہیں ہوتا جس کو وہ اپنے شیخ کی حیثیت سے ذکر کرتا ہے۔ البتہ اس سے معاصرت یا ملاقات ثابت ہوتی ہے۔ جب کہ تدلیس میں مدلِّس کی اپنے اس شیخ سے جس سے وہ تدلیس کرتا ہے، ملاقات و معاصرت کے ساتھ ساتھ سماع بھی ثابت ہوتا ہے۔ (۲) دوسرا فرق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ معاصرت کے ساتھ اگر ملاقات کا علم نہ ہو تو وہ حدیث ’’مرسَل‘‘ ہے وگرنہ ’’مدلَّس‘‘۔ بہرحال یہ علم بھی بڑی اہمیت کا مالک ہے اور اس کا ادراک انہیں ہی نصیب ہوتا ہے جو اس فن کی وسیع معلومات کے ساتھ ساتھ روایات اور ان کے طرق کا وافر علم رکھتے ہوں (علوم الحدیث، ص: ۱۴۸ ملخصاً) [2] ابن ماجہ / کتاب الجہادج۲ ص۹۲۵ حدیث رقم ۲۷۶۹ (طحّان) [3] اس کا مفصّل بیان آگے خود متن میں آرہا ہے۔