کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 120
۱۔ مدلِّس راوی کا ایسے شخص سے سماعت حدیث کا وہم ڈالنا جس سے سنا ہے (اور ظاہر ہے کہ یہ دروغ بیانی ہے) اور دروغِ گوئی ایک قابلِ مذمت وصف ہے۔
۲۔ مدلِّس راوی کا (واضح اور) بے غبار صورت سے (مبہم، غیر واضح اور) احتمالی صورتوں (کے اختیار کرنے) کی طرف پھرنا (اور معاملات کو الجھانا ’’کج روی‘‘ ہے جو مذموم ہے)۔
۳۔ مدلِّس راوی کا یہ جاننا کہ اگر اس نے اس راوی کو ذکر کردیا جس سے اس نے تدلیس کی ہے تو اس کی روایت پسندیدہ (اور دوسرے لفظوں میں مقبول) نہیں رہے گی۔[1] (اور ناپسندیدہ اور غیر مقبول روایت کو جان بوجھ کر چھپانا ایک علمی خیانت اور اخلاقی جرم ہے جو واقعی قابل مذمت ہے)۔
۱۱۔ مدلِّس کی روایت کا حکم:
مدلِّس کی روایت مقبول کرنے میں علماء محدثین کے متعدد اقوال ہیں جن میں دو قول زیادہ مشہور ہیں :
الف:… مدلِّس کی روایت ہر حال میں (مطلقاً ) ردّ ہے، اگرچہ وہ سماع کی صراحت بھی کردے کیوں کہ ’’تدلیس‘‘ بذاتِ خود ایک جرح ہے (اور جرح حدیث کے ردّ کا ایک سبب ہے) مگر یہ قول غیر معتمد ہے۔
ب:… دوسرا قول ’’تفصیل‘‘ کا ہے (یعنی مدلِّس کی روایت مطلقاً رد نہیں بلکہ اس کے رد و قبول میں تفصیل ہے) اور یہی قول صحیح اور معتمد ہے۔ (اور ’’تفصیل‘‘ کی تفصیل یہ ہے کہ) :
۱۔ اگر تو مدلِّس نے سماع کی صراحت کردی تو اس کی روایت مقبول ہوگی۔ یعنی اگر مدلِّس ’’سَمِعْتُ‘‘ وغیرہ کے الفاظ کہے (جو شیخ سے سماع پر صراحت کرتے ہیں ) تو اس کی حدیث مقبول ہوگی۔
۲۔ اور اگر مدلس (شیخ سے) سماع کی صراحت نہیں کرتا تو اس کی روایت غیر مقبول ہوگی۔ یعنی اگر تو مدلِّس ’’عن‘‘ وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ روایت کرتا ہے تو اس کی حدیث مقبول نہیں ۔[2]
۱۲۔ تدلیس کیوں کر پہچانی جاسکتی ہے؟
تدلیس کو دو میں سے ایک بات کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے، جو یہ ہیں :
الف:… یا تو پوچھنے پر خود مدلِّس بتلا دے کہ اس نے اس روایت میں تدلیس کا ارتکاب کیا ہے جیسا کہ (گزشتہ میں ) امام ابن عینیہ کے متعلق گزر چکا ہے (کہ سوال کرنے پر انہوں نے اپنی تدلیس کا اقرار کرلیا)۔
[1] الکفایۃ: ۳۵۸ (طحّان)
[2] علوم الحدیث لا بن الصلاح: ۶۷۔۶۸ (طحّان)
علامہ اسعدی نے اس موقع پر تیسرا قول بھی نقل کیا ہے کہ، ’’اگر معتمد رواۃ‘‘ ثقہ راویوں سے تدلیس کریں تو ان کی روایت مقبول ہوگی۔ اور اگر غیر ثقہ راویوں سے تدلیس کریں تو حدیث کے مقبول ہونے کے لیے شیخ سے سماع کی صراحت ضروری ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۴۷ بتصرفٍ بحوالہ تدریب الراوی ۲۳۰۱)