کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 118
(۳)نسبت کے اعتبار سے وہ =’’حلبی‘‘ ہے کیوں کہ وہ شہرِ حلب کا باشندہ ہے۔
(۴) اور صفت کے اعتبار سے وہ= واقعی سفید ریش بھی ہے
لیکن یہ شیخ لوگوں میں ان مذکورہ بالا ناموں (اور نسبتوں اور اوصاف) سے معروف نہیں ۔ اب شیخ کا ان میں سے کوئی نام رکھنا اخفاء کی ایک قسم اور شیخ کے نام میں تدلیس ہے اور مدلِّس کی یہی غرض ہوتی ہے کہ (وہ دراصل شیخ کے نام کو چھپانا چاہتا ہوتا ہے) اور اس کی وہ صفت بیان کرتا ہے جو لوگوں میں معروف نہیں ہوتی تاکہ اس کا شیخ پہچانا نہ جائے۔
رہ گئی یہ بات کہ آخر مدلِّس راوی ایسا کیوں کرتا ہے، وہ اپنے شیخ کا نام دوسروں سے کیوں چھپاتا ہے؟ تو اس کی وجہ یا تو شیخ میں کوئی عیب ، یا اس کی کم عمری، یا ضعف وغیرہ ہوتی ہے۔
ب:… تدلیسِ شیوخ کی مثال : اس کی مثال ابوبکر بن مجاہد جو ائمہ قراء میں سے ہیں ، کا یہ قول ہے: ’’حدثنا عبداللّٰہ بن ابی عبداللّٰہ‘‘ ’’ہمیں عبداللہ بن ابو عبداللہ نے بیان کیا‘‘ اور اس سے ان کی مراد ’’ابوبکر بن ابو داؤد سجستانی‘‘ ہے۔ [1]
۸۔ تدلیس کا حکم:
(چوں کہ تدلیس کی تین اقسام ہیں ، تدلیسِ اسناد، تدلیسِ تسویہ اور تدلیسِ شیوخ اس لیے ذیل میں تینوں کا حکم علی الترتیب بیان کیا جاتا ہے)
الف:… تدلیسِ اسناد کا حکم: یہ بے حد مکروہ ہے، علماء نے اس کی بہت زیادہ مذمت بیان کی ہے اور علماء میں اس کی سب سے زیادہ مذمت شعبہ بیان کیا کرتے تھے۔ انہوں نے تدلیسِ اسناد کی برائی بیان کرنے کے لیے بہت کچھ کہا ہے۔ اس بارے میں ان کا سب سے مشہور قول یہ ہے کہ، ’’ تدلیس جھوٹ کا بھائی ہے‘‘ (گویا کہ شعبہ کے نزدیک ’’تدلیس‘‘ دروغ گوئی اور دروغ بافی کا دوسرا نام ہے)۔
ب:… تدلیسِ تسویہ کا حکم: یہ تدلیسِ اسناد سے بھی دو ہاتھ آگے ہے اور اس سے کہیں بڑھ کر مکروہ اور ناپسندیدہ ہے اور ’’عراقی رحمہ اللہ ‘‘ نے تو تدلیس تسویہ کے بارے میں یہاں تک کہا ہے کہ، ’’جو جان بوجھ کر تدلیسِ تسویہ کرتا ہے وہ اپنی عدالت و وثاقت کو مجروح کرتا ہے‘‘ (گویا کہ تدلیسِ تسویہ کرنے والا شخص بے اعتبار قرار پائے گا) ۔ [2]
ج:… تدلیس شیوخ کا حکم: تدلیس کی اس قسم کی کراہت تدلیسِ اسناد کی کراہت سے کم درجہ کی ہے کیوں کہ
[1] اور یہ مثال تدلیسِ شیوخ میں اس لیے شمار ہے کہ ابوبکر بن ابی داؤد سجستانی ’’عبداللہ بن ابی عبداللہ‘‘ کے نام سے معروف نہیں ۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۴۵ بتصرفٍ)
[2] کیوں کہ یہ بڑا پُرفریب عمل ہے کہ عام آدمی اسناد کے ظاہر حال کو دیکھ کر اسے معتمد و معتبر رواۃ کی حدیث سمجھ بیٹھتا ہے پھر ظاہر ہے کہ وہ اس اسناد کے ساتھ ویساہی معاملہ بھی کرتا ہے۔ حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے کہ اس حدیث کی اسناد میں ضعیف رواۃ بھی ہوتے ہیں (علوم الحدیث، ص: ۱۴۴ بتصرفٍ و زیادۃٍ)