کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 117
۶۔ تدلیسِ شیوخ:
تدلیسِ شیوخ کی تعریف: یہ راوی کا اپنے شیخ سے ایسی حدیث کو بیان کرنا ہے جو اس نے اپنے شیخ سے سنی ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ راوی اپنے شیخ کا ایسا نام لے، یا اس کی ایسی کنیّت بیان کرے، یا ایسی نسبت بتلائے، یا اس کی ایسی کوئی صفت ذکر کرے جس سے وہ معروف نہ ہو تاکہ وہ شیخ پہچانا نہ جاسکے۔‘‘ [1]
۷۔ تدلیس شیوخ کی تعریف کی شرح:
تدلیس شیوخ یہ ہے کہ مدلِّس راوی شیخ سے وہ حدیث روایت کرے جو اس سے سنی ہے یعنی تدلیسِ شیوخ میں نہ تو (کسی راوی کا) اسناد سے اسقاط پایا جاتا ہے اور نہ عدمِ ذکر، البتہ اس میں (ایک قسم کی) مغالطہ انگیزی اور شیخ کے نام یا کنیت یا نسبت یا صفت کا چھپانا پایا جاتا ہے۔اسکی وضاحت یوں سمجھئے کہ:
ایک شیخ ہو:
جن کا نام: محمود بن احمد طحان
کنیت: ابو حفص اور
نسبت: طحان ہو
اور صفت: یہ ہو کہ ان کی داڑھی سفید ہو۔
اب ایک مدلِّس راوی آئے اور (اس ہی شیخ سے حدیث روایت کرتے ہوئے یہ) کہے:
مجھے بیان کیا:
(۱) ’’ابن احمد‘‘ نے
(۲) یا ’’ابو سہیل ‘‘[2]نے
(۳) یا ’’محمود حلبی‘‘ نے
(۴) یا ’’سفید داڑھی والے‘‘ نے
بے شک یہ سب امور شیخ پر منطبق ہوتے ہیں (اور اس پر صادق آتے ہیں ) کیوں کہ:
(۱) نام کے اعتبار سے وہ شیخ = واقعی ابن احمد ہے
(۲) کنیّت کے اعتبار سے وہ = ابو سہیل بھی ہے کیوں کہ سہیل اس کے ایک بیٹے کا نام ہے۔
[1] علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۶۶ (طحّان)
[2] مولف موصوف نے مثال دیتے ہوئے کنیّت ’’ابو حفص‘‘ ذکر کی ہے مگر تطبیق کے وقت اس کو ’’ابو سہیل‘‘ کر دیا ہے بظاہر یہ تسامح ہے۔ بندہ عاجز مترجم نے متن کی رعایت کرتے ہوئے ترجمہ میں نام نہیں بدلے مگر مقصود ایک ہی ہے کہ مدلِّس راوی اسناد میں شیخ کا نام لینے کی بجائے ان کی کنیت ذکر کرے۔ فقط واللہ اعلم۔