کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 116
ثقہ راوی سے حدیث روایت کر رہا ہوتا ہے۔ اور وہ اس حدیث پر صحت کا حکم لگادیتا ہے (کہ اس اسناد میں سب رواۃ ثقہ نظر آتے ہیں ) یقینا (ایسی اسناد میں اور) اس تدلیس میں (جو تدلیسِ تسویہ کے نام سے معروف ہے) دوسروں کو (یعنی قارئین حدیث کو) شدید دھوکا دینا ہے۔
ب: …مشہور مدلِّس دو ہیں : (۱)بقیّہ بن ولید: ان کے بارے میں ابو مسہر کہتے ہیں ، ’’بقیہ کی احادیث صاف نہیں ہیں ‘‘ ان سے بچ کر رہو۔ [1]
(۲)ولید بن مسلم
ج:… تدلیس تسویہ کی مثال: اس کی مثال وہ حدیث ہے جو ’’ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے ’’العلل‘‘ میں روایت کی ہے، ابن ابی حاتم فرماتے ہیں : ’’میں نے اپنے والد کو سنا آگے ابن ابی حاتم کے والد اس حدیث کو ذکر کرتے ہیں جو اسحاق بن راہویہ نے بقیہّ سے روایت کی ہے کہ بقیّہ کہتے ہیں کہ مجھے ابو وہب اسدی نے نافع سے، وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں ’’کسی آدمی کے اسلام کی تعریف مت بیان کرو یہاں تک کہ اس کی رائے کی پختگی کو جان لو۔‘‘ (ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ یہ حدیث بیان کرکے) میرے والد کہتے ہیں ، ’’اس حدیث میں ایک ایسی بات اور کمزوری ہے جو کم ہی لوگوں کو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اس حدیث کو ’’عبید اللہ بن عمرو رحمہ اللہ نے ‘‘ ’’اسحاق بن ابی فروۃ‘‘ سے، انہوں نے ’’نافع‘‘ سے، انہوں نے حضرتِ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے۔
مذکورہ عبید اللہ بن عمرو کی کنیت ’’ابو وھب‘‘ ہے جو قبیلہ ’’بنی اسد‘‘ سے نسبت کی وجہ سے ’’اسدی‘‘ کہلاتے ہیں ۔ پس یہاں بقیّہ نے عبید اللہ بن عمرو (کا جو ثقہ راوی ہیں ، نام ذکر کرنے کی بجائے ان) کی کنیت ذکر کی ہے اور انہیں بنی اسد کی طرف منسوب کیا ہے تاکہ وہ پہچانے نہ جاسکیں ۔ یہاں تک کہ جب بقیّہ نے (اسناد سے ضعیف راوی) ’’اسحاق بن ابی فروۃ‘‘ کو ترک کیا تو (بھی) وہ نہ پہچانے جاسکے۔‘‘[2]
[1] میزان الاعتدال ج۱ ص ۳۳۲ (طحّان)
[2] ’’شرح الالفیۃ‘‘ للعراقی۱/۱۹۰، تدریب الراوی۱/۲۲۵ (طحّان)
خلاصہ یہ ہے کہ ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد ابو حاتم نے اس حدیث کو بیان کیا جو اسحاق بن راھویہ نے بقیّہ سے بیان کی۔ آگے بقیّہ اس کی یہ اسناد بیان کرتے ہیں : ’’حدثنی ابو وھب الاسدی عن نافع عن ابن عمر‘‘
ابو حاتم کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ایک باریک خامی ہے جِس کا ادراک ہر ایک کے بس کی بات نہیں وہ یہ کہ ابو وھب اسدی کا اصلی نام عبید اللہ بن عمرو ہے جو ثقہ ہیں اور ’’ابو وھب‘‘ ان کی کنیّت اور ’’اسدی‘‘ ان کی خاندانی نسبت ہے۔ انہوں نے یہ حدیث ’’اسحاق بن ابی فروہ‘‘ سے لی ہے جو ضعیف ہے۔ وہ آگے نافع سے اور وہ حضرتِ ابن عمرؓ سے حدیث بیان کرتے ہیں ۔
اب بقیّہ نے جن سے اسحاق بن راھویہ نے حدیث کو لیا ہے، یہ کیا ہے کہ عبید اللہ بن عمرو اور نافع کے درمیان کے راوی اسحاق بن ابی فروۃ کو جو ضعیف ہیں ترک کردیا اور اپنی اس حرکت پر پردہ ڈالنے کے لیے عبید اللہ بن عمرو کی وہ کنیّت ذکر کی جِس سے وہ معروف نہ تھے اور ان کی وہ خاندانی نسبت ذکر کی جس سے وہ مشہور نہ تھے۔تاکہ روایانِ حدیث کے احوال سے واقف لوگ بقیہ کے اس جرمِ تدلیس کو سمجھ نہ سکیں اور اس سند کو ایک متصل سند سمجھیں اور یہ ’’تدلیس تسویہ‘‘ اس لیے ہے کہ یہاں ساقط ضعیف راوی دو ثقہ راویوں کے درمیان ہے۔ فقط واللہ اعلم۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۴۴ بتصرفٍ وزیادۃ)