کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 115
جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’کیا آپ نے زہری سے اس حدیث کو سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا، ’’نہیں (نہ تو زہری سے یہ حدیث سنی ہے) اور نہ ان سے ہی جنہوں نے زہری سے سنی ہے (بلکہ) مجھے (یہ حدیث) عبدالرزاق نے معمر کے واسطے سے زہری سے بیان کی ہے۔‘‘
اس مثال میں ابن عیینہ نے اسنادِ حدیث سے اپنے اور زہری کے درمیان کے دو راویوں (عبدالرزاق اور معمر) کو ساقط کیا ہے۔
۵۔ تدلیسِ تسویہ: [1]
یہ بھی تدلیس کی ایک صورت ہے جو دراصل ’’تدلیسِ اسناد‘‘ کی ہی ایک قسم ہے۔ (جس کی تفصیل یہ ہے):
الف: تدلیسِ تسویہ کی تعریف: تدلیس تسویہ یہ ہے کہ راوی ایک حدیث کو اپنے شیخ سے روایت کرے پھر آگے سند میں دو ایسے ثقہ راویوں ، جن کی ایک دوسرے سے ملاقات ثابت ہو، کے درمیان آنے والے کسی ضعیف (یعنی کم حیثیت) راوی کو گرادے۔
آئیے! ذیل میں اس کی تفصیلی صورت کو بیان کیا جاتا ہے:
’’کہ راوی ایک حدیث کو کسی ثقہ شیخ سے روایت کرے اور آگے اسناد میں وہ ثقہ اس حدیث کو ایک ضعیف سے اور وہ ضعیف پھر کسی ثقہ سے حدیث کو بیان کر رہا ہو اور واقعہ یہ ہو کہ ان دونوں ثقہ کی ایک دوسرے سے ملاقات بھی ثابت ہو۔ اب اس حدیث کو پہلے ثقہ شیخ سے سننے والا مدلِّس راوی آگے بڑھتا ہے اور سند سے (ان دونوں ثقہ راویوں کے بیچ کے) ضعیف راوی کو سند سے گرادیتا ہے اور اسناد کی یہ صورت مقرر کرتا ہے کہ اس نے اپنے ثقہ شیخ سے اور انہوں نے ایک دوسرے ثقہ سے یہ حدیث سنی ہے۔ (لیکن سند میں ضعیف راوی کے اس اسقاط کو) محتمل الفاظ کے ساتھ بیان کرے (جن سے دونوں ثقات کے ایک دوسرے سے حدیث روایت کرنے کا گمان ہوتا ہو)۔ پس (ایسا کرنے سے اس کی غرض یہ ہو کہ) وہ اسناد میں (رواۃ کے احوال کے اعتبار سے) تسویہ یعنی برابری کردے کہ سب کے سب رواۃ ثقات بنادے (اور درمیان میں ایسا کوئی راوی نہ چھوڑے جس کا حال ثقہ راویوں کے برابر اور ہم پلّہ نہ ہو)۔
یاد رہے کہ یہ تدلیس کی بدترین صورت ہے کیوں کہ اس صورت میں کبھی پہلا ثقہ راوی (جس کے بعد کے ضعیف راوی کو اسناد میں تسویہء ثقات کے حصول کے لیے گرادیا گیا ہوتا ہے) تدلیس کرنے میں معروف نہیں ہوتا جب کہ تسویہ کے بعد سند پڑھنے والا اس کو مدلِّس باور کرنے لگتا ہے کہ وہ(درمیان کے ایک ضعیف راوی کو چھوڑ کر) ایک دوسرے
[1] علماء نے تدلیسِ اسناد کی پانچ اقسام اور صورتیں ذکر کی ہیں جن میں سب سے اہم ’’تدلیس تسویہ‘‘ ہے، اس لیے علماء نے تدلیس اسناد کی اس قسم کو اہتمام سے ذکر کیا ہے جب کہ حافظِ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کو ’’تدلیس شیوخ‘‘ جس کا ذکر آگے آجاتا ہے، کے تحت ذکر کیا ہے۔ تدلیس تسویہ کی تعریف اور تفصیل اوپر متن میں بیان کی جاتی ہے۔
(علوم الحدیث، ص: ۱۴۳ بتصرفٍ و زیادۃٍ)