کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 114
کرکے حدیث کو) روایت کرنا ہے جس سے (حدیث مدلَّس کے علاوہ بھی) چند دوسری احادیث سن رکھی ہوں لیکن جس حدیث میں راوی تدلیس کر رہا ہو اس کو شیخ سے نہ سنا ہو۔ بلکہ اس شیخ کے شیخ سے سنا ہو۔ اب راوی اس شیخ کو (جس سے حدیث سنی تھی) اسناد سے ساقط کرکے اس پہلے شیخ سے (جس سے حدیث نہیں سنی تھی) حدیث کو ایسے الفاظ کے ساتھ روایت کرے جو سماع کا احتمال رکھتے ہوں (کہ ان الفاظ سے بظاہر یوں سمجھ میں آتا ہے کہ راوی نے اس شیخ سے حدیث کی سماعت کی ہے) جیسے ’’قَالَ‘‘ یا ’’عن‘‘ وغیرہ کے الفاظ[1]تاکہ راوی دوسروں کو وہم میں مبتلا کرے، جو صراحۃً بتلاتے ہوں کہ راوی نے یہ حدیث اس شیخ سے سن رکھی ہے۔ لہٰذا ، ’’سَمِعْتُ‘‘ یا ’’حَدَّثَنِیْ‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ نہ کہے تاکہ ان الفاظ کے کہنے سے جھوٹا نہ بنے۔
(یہ تو رہی تدلیس ِ اسناد کی تعریف کی شرح اور اس کی صورت) دوسری بات یہ ہے کہ مُدَلِّس نے اسناد سے جن کو ساقط کیا ہے وہ ایک بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ بھی۔
ج:… تدلیس ِ اسناد اور ارسالِ خفی میں فرق: امام ابو الحسن بن قطان مذکورہ بالا تعریف بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں ’’تدلیس ِ اسناد اور ’’ارسال‘‘ میں یہ فرق ہے کہ ’’ارسال‘‘ یہ راوی کا اس سے روایت کرنا ہوتا ہے جس سے (کچھ بھی) سماع نہ کیا ہو۔(جب کہ تدلیسِ اسناد میں اس سے ارسال کیا جاتا ہے۔ جس سے دوسری احادیث کا سماع ثابت ہو اگرچہ جس حدیث میں تدلیس کر رہا ہے وہ نہ سنی ہو) (ابن قطان کی) اس (مذکورہ عبارت) کی وضاحت یہ ہے کہ ’’مُدَلِّس اور مُرسِل (تدلیس اور ارسال کرنے والے) میں سے ہر ایک ’’ارسالِ خفی‘‘ کرتا ہے کہ وہ شیخ سے سماع کا احتمال رکھنے والے الفاظ کے ساتھ ایسی بات روایت کرتا ہے جو اس سے سن نہ رکھی ہو۔ البتہ مُدَلِّس نے مذکورہ شیخ سے اس حدیث کے علاوہ جس میں وہ تدلیس کر رہا ہوتا ہے، اور احادیث سن رکھی ہوتی ہیں جب کہ ’’ارسالِ خفی‘‘ کرنے والے ’’مُرسِل‘‘ نے مذکورہ شیخ سے کبھی کچھ نہیں سنا ہوتا، نہ تو وہ احادیث جن میں ارسال کر رہا ہوتا ہے اور نہ کوئی اور حدیث، البتہ وہ اس شیخ کا معاصر ہوتا ہے یا اس سے (کسی موقع پر) ملاقات کی ہوتی ہے۔
د: …تدلیس ِ اسناد کی مثال: اس کی مثال وہ حدیث ہے جس کو حاکم نے علی بن خشرم تک اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے، جو یہ ہے:
’’قال : قال لنا ابن عیینۃ : عن الزہری ، فقیل لہ : سمعتہ من الزہری ؟ فقال لا ، ولا ممن سمعہ من الزہری ۔ حدثنی عبدالرزاق عن معمر عن الزھری۔‘‘ [2]
’’علی بن خشرم کہتے ہیں ’’ہمیں ابن عیینہ نے (ایک حدیث کو بیان کرتے ہوئے) ’’عن الزھری‘‘ کہا۔
[1] جیسے یوں کہے :’’قَالَ فُلَانُ، عَنْ فُلَانٍ‘‘ اسی طرح ’’اَنَّ‘‘ کے ذریعے تدلیس کرنا جیسے ’’حَدَّثَنَا فلان اَنَّ فُلَانًا‘‘ اور شیخ کے نام سے پہلے جو الفاظ لائے جاتے ہیں ان کو ذکر کئے بغیر شیخ کا نام لینا جیسے ’’الزہری عن فلانِ‘‘ وغیرہ (علوم الحدیث، ص: ۱۴۲ بتصرفٍ یسیر)
[2] اخرجہ الحاکم فی ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ ص۱۳۰ (طحّان)