کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 113
سنوار کر اور آراستہ کرکے پیش کرنا ہے۔
۲۔ تعریف کی شرح:
یعنی ’’مُدَلِّس‘‘ اسناد کے عیب کو، جو اسناد کا انقطاع ہے، چھپاتا ہے۔ چناں چہ ’’مُدَلِّس‘‘ اپنے شیخ کو (اسناد سے) ساقط کرتا ہے[1]اور حدیث کو اپنے شیخ کے شیخ سے روایت کرتا ہے، پھر اسناد کے ’’اس اِسقاط‘‘ کو چھپانے کے مختلف حیلے بہانے اختیار کرتا ہے اور اسناد کے ظاہر کو اچھا بنا کر یوں پیش کرتا ہے کہ اس اسناد کو دیکھ کر آدمی کو (متبادراً) یہ وہم ہوتا ہے کہ یہ اسناد تو متصل ہے اور اس میں کسی قسم کا سقوط نہیں ۔
۳۔ تدلیس کی اقسام:
تدلیس کی دو بنیادی اقسام ہیں :
(۱) تدلیسِ اسناد (۲) اور تدلیسِ شیوخ
(ہر ایک کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے)
۴۔ تدلیسِ اسناد:
علماء و محدثین نے تدلیس کی اس قسم کی مختلف اور متعدد تعریفات بیان کی ہیں ان میں سے جو تعریف ہماری نظر میں سب سے صحیح اور پرمعنی (یعنی دقیق) ہے ہم اس کو بیان کریں گے اور یہ امام ابو احمد بن عمروبزار اور امام ابو الحسن بن قطّان نے بیان کی ہے۔ جو یہ ہے:
الف: …تدلیس ِ اسناد کی (امام بزار و امام ابن قطان کی بیان کردہ) تعریف: تدلیس ِ اسناد یہ ہے کہ راوی اس شخص سے، جس سے (پہلے دوسری) احادیث کی سماعت کر رکھی ہو ایسی حدیث کو روایت کرے جو اس سے سنی نہ ہو اور یہ بھی نہ بتلائے کہ میں نے اس سے یہ حدیث نہیں سن رکھی۔‘‘[2]
ب:… مذکورہ تعریف کی شرح: اس تعریف کا مطلب یہ ہے کہ تدلیس ِ اسناد یہ راوی کا اس شیخ سے (تدلیس
[1] علامہ کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ تدلیس کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں : ’’تدلیس یہ حدیث بیان کرنے والے کا اپنے معاصر سے ایسی روایت کرنا ہے، جو اس نے نہ سنی ہو لیکن بیان اس طرح کرے کہ گویا اس نے یہ حدیث اس سے سنی ہے، یا محدّث کا اپنے شیخ کا ایسا نام لینا تدلیس کہلاتا ہے جِس سے وہ مشہور نہ ہو (القاموس الوحید ص۵۳۷ بتصرفٍ) اور اس کی تیسری صورت اسناد سے اپنے شیخ کو ہی ساقط کرکے ’’شیخ الشیخ‘‘ سے اس حدیث کو روایت کرنا ہے۔ جو اوپر متن میں مذکور ہے۔ تدلیس کی دو بنیادی اقسام کا تذکرہ آگے آ رہا ہے۔ فقط واللہ اعلم۔
[2] شرح الفیۃ العراقی لہ ج۱ ص ۱۸۰ نقلاً عن البزار والی الحسن بن قطان بتصرفٍ یسیر (طحّان)
یعنی ایسے الفاظ کے ساتھ حدیث روایت کرے جس سے براہِ راست سننے کا گمان ہوتا ہو۔ اگرچہ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے لیکن انہوں نے جس شخص کی طرف نسبت کی جائے اس سے ملاقات کی شرط لگائی ہے اور بظاہر استاد سے ملاقات ہوا ہی کرتی ہے۔ (نزھۃ النظر ص۴۳) اور ابن صلاح بھی ملاقات کا اعتبار کرتے ہیں اگرچہ وہ صرف معاصرت کو بھی کافی سمجھتے ہیں ۔ جیسا کہ بعض حضرات نے محض ’’معاصرت‘‘ کو ہی مدار قرار دیا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۴۲ مع الحاشیۃ رقم ۱ بتصرفٍ بحوالہ تدریب الراوی ۱/۲۲۳۔۲۲۴)