کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 111
منقطع کو اس صورت کے ساتھ خاص کیا ہے جس پر مرسل یا معلّق یا مُعضَل احادیث کی صورتیں منطبق نہ ہوں سکیں (اسکی مزید تفصیل شق نمبر ۳ میں آرہی ہے)۔ ۳۔ متاخرین علمائے حدیث کے نزدیک ’’حدیث منقطع‘‘: (متاخرین محدثین کے نزدیک) منقطع وہ حدیث ہے جس کی سند متصل نہ ہو اور وہ مرسل یا معلّق یا معضَل کے نام کو شامل ہو، گویا کہ ’’منقطع‘‘ ایک ایسا عام نام ہے جو اسناد کے انقطاع کی ہر صورت کو شامل ہے سوائے انقطاع کی تین صورتوں کے، جو یہ ہیں : ۱۔ اسناد کے اوّل سے راوی کا حذف ہونا۔ ۲۔ اسناد کے آخر سے راوی کا حذف ہونا۔ ۳۔ اور اسناد میں کسی بھی جگہ دو راویوں کے پے درپے حذف ہونا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’نخبۃ الفکر‘‘ اور اس کی شرح میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔[1] اور کبھی یہ انقطاع حدیث (کی اسناد کے درمیان) میں صرف ایک جگہ ہوتا ہے اور کبھی دو جگہ ہوتا ہے گویا کہ انقطاع دو یا تین جگہ سے ہوتا ہے: ۴۔ حدیث منقطع کی مثال: اس کی مثال وہ حدیث ہے جو عبدالرزاق نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے روایت کی ہے جس کی اسناد یہ ہے: ’’عن ابی اسحاق، عن زید ابن یُثَیْعٍ عن حذیفۃ مرفوعاً : ’’اِنْ وَلَّیْتُمُوْھَا اَبَابَکْرٍ فَقَوِیُّ اَمِیْنٌ۔‘‘[2] ’’کہ سفیان ثوری ابو اسحاق سے، وہ زید بن یُثَیع سے، وہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کرتے ہیں کہ ’’اگر تم خلافت کو ابوبکر کے سپرد کروگے تو (وہ اس کے اہل ہیں کیوں کہ وہ) قوی (اور شجاع بھی ہیں ) اور امانت کے زیور سے آراستہ (بھی) ہیں ‘‘ (اور ایسا ہی شخص خلافت کا اہل ہوتا ہے کہ رب کے سوا کسی سے ڈرتا نہ ہوں اور عدل و انصاف سے متّصف ہو)۔‘‘ پس اس حدیث کی اسناد کے وسط سے ثوری اور ابو اسحاق کے بیچ کا ایک ’’شریک‘‘ نامی راوی ساقط ہے کیوں کہ ثوری نے ابو اسحاق سے بلاواسطہ حدیث کی سماعت نہیں کی، انہوں نے تو شریک سے سماعت کی ہے اور شریک نے
[1] ’’النَّخبۃ وشرحھالہ ص۴۴‘‘ (طحّان) گویا کہ حدیث منقطع میں انقطاع سند کے درمیان میں ہوتا ہے اور اس میں پے درپے دو راوی سند سے ساقط نہیں ہوتے (علوم الحدیث، ص: ۱۴۰ بتصرفٍ) [2] اخرجہ الحاکم فی معرفۃ علوم الحدیث ص۳۶، واخرجہ احمد والبزار والطبرانی فی المعجم الاوسط بمعناہ۔ دیکھیں مجمع الزوائد: ۵/۱۷۶ (طحّان)