کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 110
۵۔ معضل احادیث کے پائے جانے کے مواقع: علامہ سیوطی رحمہ اللہ [1]فرماتے ہیں : ’’معضَل، معلّق اور مرسل احادیث (کی خاص تعداد) ان کتابوں میں پائی جاتی ہے: الف:… ’’کتاب السنن‘‘: یہ سعید بن منصور متوفی ۲۲۷ھ کی تصنیف ہے۔ ب:… ’’مولفات ابن ابی الدنیا۔‘‘[2] ۴… حدیث منقطع ۱۔منقطع کی تعریف: الف:… لغوی تعریف: لفظ منقطع یہ ’’اَلْاِنْقِطَاع‘‘ (مصدر) سے اسمِ فاعل کا صیغہ ہے اور (لغوی معنی کے اعتبار سے) یہ ’’اتّصال‘‘ کی ضد ہے۔ (کہ انقطاع کا معنی کٹنا اور منقطع ہونا ہے) جب کہ اتصال کا معنی ملنا اور جڑنا ہے (اور یہ دونوں معانی ایک دوسرے کی ضد ہیں ) ب: …اصطلاحی تعریف: (محدثین کی اصطلاح میں ) منقطع وہ حدیث ہے جس کی اسناد متّصل نہ ہو چاہے اس کے انقطاع کی جو بھی صورت ہو۔[3] ۲۔ تعریف کی شرح: یعنی ہر وہ (حدیث جس کی) اسناد کسی بھی جگہ سے منقطع ہو (وہ حدیث منقطع کہلاتی ہے) چاہے یہ انقطاع اسناد کے شروع سے ہو یا درمیان سے یا آخر سے ہو، چناں چہ اس تعریف کی بنا پر احادیثِ مرسل، معضل اور معلّق (تینوں منقطع کی) تعریف میں داخل ہو جائیں گی۔[4]اور متقدمین علماء منقطع کو اکثر اس معنی میں استعمال کرتے تھے، اسی لیے امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’منقطع کے لفظ کو اکثر اس حدیث پر بولا جاتا تھا جسے تابعی سے نیچے درجے کے لوگ صحابی سے روایت کریں (یعنی اس حدیث کی اسناد میں آخری راوی اور صحابی کے درمیان تابعی سند سے ساقط ہو) جیسے کہا جائے ’’مالک عن ابن عمر‘‘[5] (کہ یہاں امام مالک اور صحابیء رسول حضرتِ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان تابعی سند سے حذف ہے) لیکن ’’علم مصطلح الحدیث‘‘ کے متاخرین علماء نے منقطع کی تعریف میں کچھ تخصیص کی ہے اور حدیث
[1] ’’تدریب الراوی ۱/۲۱۴‘‘ (طحّان) [2] معضل احادیث کی جامع کوئی تالیف نہیں ہے۔ البتہ بعض کتابوں میں ان کا بڑا حِصّہ موجود ہے جن میں سے دو کا ذکر اوپر آگیا ہے (علوم الحدیث، ص: ۱۳۹ بتصرفٍ) [3] التقریب مع التدریب النوع العاشرالمنقطع۱/۲۰۷ (طحّان) [4] مگر بظاہر منقطع کی یہ تعریف از روئے لغت ہے جس کا اطلاق سند سے انقطاع کی ہر صورت پر ہوتا ہے اور یہ تعریف متقدمین کے نزدیک ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۴۰ بتصرفٍ) [5] التقریب مع التدریب۱/۲۰۸ (طحّان)