کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 109
معضل حدیث کی مثال: اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے حاکم رحمہ اللہ نے ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ میں اپنی سند سے قعنبی سے روایت کی ہے۔ ’’عن مالک اَنَّہُ بَلَغہُ اَنَّ اَبَا ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لِلْمَمْلُوْکِ طَعَامُہُ وَکِسْوَتُہُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا یُکَلَّفُ بِالْعَمَلِ اِلاَّ مَا یُطِیْقُ ‘‘ ’’امام مالک سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی کہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’غلام کا کھانا اور کپڑا دستور کے موافق اس کو دیا جائے گا اور اس سے اتنا ہی کام لیا جائے گا جتنا وہ کر سکتا ہے‘‘ (یہ حدیث نقل کرنے کے بعد) امام حاکم فرماتے ہیں : یہ حدیث امام مالک سے مُعْضَل ہے اس کو امام مالک نے ’’مؤطا‘‘ میں یوں ہی نقل کیا ہے۔‘‘[1] اور یہ حدیث اس لیے ’’مُعضَل‘‘ ہے، کیوں کہ امام مالک رحمہ اللہ اور حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان پے درپے دو راوی حذف ہیں ۔ اور ہمیں یہ بات کہ مذکورہ حدیث کی اسناد سے دو راوی پے درپے حذف ہیں یوں معلوم ہوئی ہے کہ مؤطا کے علاوہ دوسری کتب میں اس حدیث کی اِسناد یوں آتی ہے: ’’…عن مالک عن محمد ابن عجلان عن ابیہ عن ابی ھریرۃ۔‘‘[2] ۳۔ حدیث مُعْضَل کا حکم: یہ حدیث ’’ضعیف‘‘ ہے اور یہ ’’مرسل‘‘ اور ’’منقطع‘‘ سے بھی زیادہ بُری حدیث ہے۔ [3] کیوں کہ اس کی اسناد سے زیادہ راوی حذف ہیں اور حدیث مُعضَل کا یہ حکم بالاجماع ہے۔ ۴۔ حدیث مُعضَل کا حدیث معلّق کی بعض صورتوں کے ساتھ جمع ہوجانا: مُعضَل اور معلّق میں عموم خصوص من وجہ کا فرق ہے، اس لیے بعض مواقع میں یہ دونوں احادیث جمع ہو جاتی ہیں اور بعض مواقع میں جمع نہیں ہوتیں دونوں احادیث کے اجتماع اور عدمِ اجتماع کی صورتیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ الف:… حدیث مُعضَل، معلّق کے ساتھ ایک صورت میں جمع ہوتی ہے، کہ جب حدیث کی ابتداء سے ہی دو راوی پے درپے حذف ہوں کہ اس صورت میں ایسی حدیث ایک ہی وقت میں مُعضَل بھی ہوتی ہے اور معلّق بھی۔ ب: …حدیث مُعْضَل کی معلّق کے ساتھ عدمِ اجتماع کی دو صورتیں ہیں : ۱۔ جب اِسناد کے درمیان سے پے درپے دو راوی حذف ہوں تو اس وقت یہ حدیث معضل ہوگی ناکہ معلّق۔ ۲۔ اور اسناد کے شروع سے صرف ایک راوی حذف ہو تو یہ حدیث معلَّق ہوگی ناکہ مُعضَل۔
[1] معرفۃ علوم الحدیث ص۴۶ (طحّان) [2] معرفۃ علوم الحدیث ص۴۷ (طحّان) گویا کہ مؤطا کی روایت میں امام مالک کے بعد سند سے محمد ابن عجلان اور ان کے والد عجلان حذف ہیں ۔ [3] دیکھیں الکفایۃ ص۲۱، تدریب الراوی ۱/۲۹۵ (طحّان)