کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 107
۴۔ (چوتھی شرط یہ ہے کہ) مذکورہ بالا تین شروط کے ساتھ مندرجہ ذیل امور میں سے ایک امر ملا ہوا ہو: الف: …حدیث مرسل کسی دوسرے طریق سے ’’مسند‘‘ بھی مروی ہو۔ ب: …یا مرسل حدیث ایک دوسرے طریق سے بھی ’’مرسل‘‘ مروی ہو مگر اس طریق سے ارسال کرنے والے نے پہلی مرسل حدیث کے رجال کے علاوہ سے علم حاصل کیا ہو۔[1] ج: …یا وہ مرسل حدیث کسی صحابی کے قول کے موافق ہو۔ د: …یا اکثر علماء (اور فقہاء) اس مرسل حدیث کے مقتضٰی پر فتویٰ دیتے ہوں ۔[2] پس جب یہ شرطیں پائی جائیں تو حدیث مُرسَل اور اس کی مؤیّد حدیث مرسَل کی اصل کی صحت ظاہر اور ثابت ہو جائے گی اور یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں ۔ اور اگر ایک طریق سے مروی کوئی دوسری صحیح حدیث ان دونوں حدیثوں کے معارض ہو تو دونوں (یعنی دو مرسل احادیث اور صحیح حدیث) کے درمیان جمع و تطبیق کے متعذر ہونے کی صورت میں ہم دونوں مرسل احادیث کو ان کے طرق کے متعدد ہونے کی وجہ سے صحیح حدیث پر ترجیح دیں گے۔ یہ وضاحت تو یوں رہی، البتہ مذکورہ بالا امور، جن میں کسی ایک کا گزشتہ مذکورہ تین شروط کے ساتھ ملا ہونا ضروری ہے، کی وضاحت ان مندرجہ ذیل (مساواتِ ریاضیّہ) سے ہو سکتی ہے: الف:… حدیث مرسَل + حدیث مُسنَد = صحیح ب: …حدیث مرسَل + حدیث مُرسَل = صحیح ج: …حدیث مرسل +قول صحابی = صحیح د: …حدیث مرسل +اکثر علماء کا فتویٰ = صحیح ۷۔ مرسلِ صحابی رضی اللہ عنہ : (یعنی کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی مرسَل حدیث اور) یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے بارے میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس کو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود نہ سنا ہو یا اس فعل کا خود مشاہدہ نہ کیا ہو۔ جس کی یہ وجوہات ہو سکتی ہیں : یا وہ صحابی کم عمر تھے۔ یا بعد میں اسلام لائے اور یا اس موقع پر موجود نہ تھے
[1] یعنی دوسری مرسل حدیث کا راوی، اس کے اساتذہ اور اس کے رواۃ پہلی مرسل حدیث کے راوی اس کے اساتذہ اور رواۃِ سند سے مختلف ہوں (علوم الحدیث، ص: ۱۳۶ بتصرفٍ) [2] دیکھیں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ’’الرسالۃ‘‘ ص۴۶۱ (طحّان)