کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 106
جو یہ ہیں :
۱۔ حدیث مرسل ضعیف اور مردود ہے:
یہ جمہور محدثین اور اکثر فقہاء اور علمائے اصول کا مذہب ہے۔ ان سب حضرات کی دلیل محذوف اور ساقط راوی کے حال کا مجہول ہونا ہے۔( اور راوی کی جہالت حدیث کے ضعیف اور مردود ہونے کا معروف سبب ہے) کیوں کہ محذوف راوی کے غیر صحابی ہونے کا احتمال (غالب) ہے۔
۲۔ حدیث مرسل صحیح اور قابل استدلال ہے:
یہ ائمہ ثلاثہ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا مشہور مذہب ہے۔ جب کہ علماء کی ایک جماعت بھی اس کی قائل ہے۔ مگر ان حضرات کے نزدیک یہ شرط ہے کہ (سندِ حدیث میں ) ارسال کرنے والا خود بھی ’’ثقہ‘‘ ہو اور جس کو سند سے ساقط کر رہا ہو وہ بھی ثقہ ہو (یعنی اگر تو حدیث مرسل میں ’’اِرْسَالُ ثِقَۃٍ عَنْ ثِقَۃٍ‘‘ ہو تو وہ صحیح اور قابلِ استدلال ہے) ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ راوی ’’قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘ کہنے کو کبھی حلال نہیں سمجھ سکتا (اور نہ ایسا کہنے کی جرأت ہی کر سکتا) مگر اسی وقت جب اس نے اس حدیث کو کسی ثقہ راوی سے سنا ہو۔[1]
۳۔ حدیث مرسل چند شروط کے ساتھ مقبول ہے:
یعنی مرسل حدیث چند شروط (کے پائے جانے) سے صحیح ہو جاتی ہے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ اور چند علماء کا مذہب ہے۔یہ شروط چار ہیں ، جن میں سے تین کا تعلق ارسال کرنے والے راوی سے ہے اور ایک کا تعلق ’’حدیث مرسل‘‘ سے ہے۔ یہ شروط (علی الترتیب) یہ ہیں :
(ارسال کرنے والے سے متعلق تین شروط)
۱۔ ارسال کرنے والا کوئی (جلیل القدر اور) اکابرین تابعین میں سے ہوں ۔
۲۔ اور جب وہ تابعی اس مخذوف راوی کا نام بتلائے تو کسی ثقہ کا نام بتلائے۔ یعنی جب اس سے محذوف راوی کے بارے میں سوال کیا جائے (اور اس کا نام وغیرہ دریافت کیا جائے) تو وہ کسی ثقہ اور معتبر و معتمد شخص کا نام بتلائے۔
۳۔ اور جب اس مرسل حدیث کی روایت میں دوسرے معتمد حفاظِ حدیث بھی شریک ہو جائیں تو وہ ارسال کرنے والے کے خلاف روایت نہ کریں ۔
یعنی ارسال کرنے والے راوی کا ضبط ایسا کامل اور تاّم ہو کہ حدیث مرسل کی روایت میں شریک دوسرے ضابط راوی اس کی روایت میں موافق ہوں (ناکہ مخالف)۔
(ان تین شروط کا تعلق تو ارسال کرنے والے سے تھا۔ اب چوتھی اور آخری شرط ملاحظہ کیجیے جس کا تعلق حدیث مرسل سے ہے)۔
[1] اسی لیے حضرات تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق منقول ہے کہ وہ مرسل پر نکیر نہیں کیا کرتے تھے (علوم الحدیث، ص: ۱۳۶)