کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 105
حضرت سعید بن مسیّب بڑے جلیل القدر تابعی ہیں انہوں نے اس حدیث کو اپنے اور جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ کو ذکر کیے بغیر روایت کیا ہے۔ انہوں نے اس حدیث کی اسناد سے آخری راوی کو ساقط کر دیا ہے (یعنی انہیں ذکر نہیں کیا) اور یہ تابعی کے بعد کا راوی ہے اور کم از کم یہ ہے کہ ساقط ہونے والا وہ راوی صحابی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ صحابی کے ساتھ انہی جیسا کوئی تابعی بھی سند سے ساقط ہو۔[1]
۵۔فقہاء اور علمائے اصول کے نزدیک حدیث مرسل:
حدیث مرسل کی جو تعریف (اور صورت و مثال) ہم نے ذکر کی ہے وہ حضرات محدثین کے نزدیک ہے۔ البتہ فقہاء اور علمائے اصول کے نزدیک مرسل کی تعریف اس سے عام ہے۔ ان حضرات کے نزدیک ہر وہ حدیث مرسل ہے جس کی اسناد میں انقطاع پایا جائے( اور وہ متّصل نہ ہو) خواہ وہ انقطاع کسی بھی نوعیت کا ہو۔ (یعنی چاہے وہ انقطاع حدیث کے اوّل سے ہو یا آخر سے یا درمیان سے اور ایک راوی ساقط ہو یا زیادہ، پے درپے ساقط ہوں یا متفرق۔ غرض سند میں سقوط کے سبب مردود حدیث کی جملہ اقسام ان حضرات کے نزدیک ’’حدیث مرسل‘‘ کہلاتی ہیں ) [2]
یاد رہے کہ یہ خطیب بغدادی کا مذہب ہے۔
۶۔ حدیث مرسل کا حکم:
’’حدیث مرسل‘‘ اصلاً ’’ضعیف اور مردود‘‘ ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس میں صحتِ حدیث کی شروط میں سے ایک شرط۔ اتصال سند۔ ساقط ہوتی ہے اور دوسرے اس میں محذوف راوی کا حال مجہول ہوتا ہے۔ کیوں کہ احتمال اس بات کا بھی ہے کہ (تابعی کے بعد کا) ساقط راوی صحابی نہ ہو بلکہ تابعی ہو (جیسا کہ گزشتہ حاشیہ میں گزر گیا ہے) اور اس صورت میں اس غیر صحابی محذوف راوی کے (مجہول اور) ضعیف ہونے کا احتمال ہے۔[3]
لیکن حدیث مرسل کے حکم اور اس سے استدلال کرنے میں علماء محدثین اور غیر محدثین میں اختلاف ہے۔ کیوں کہ سند میں راوی کے انقطاع ہونے کی یہ صورت سند میں کسی بھی دوسری انقطاع کی صورت سے مختلف ہے، کیوں کہ اغلب یہ ہے کہ ’’حدیث مرسل‘‘ میں ساقط ہونے والا راوی صحابی ہو اور صحابہ سب کے سب عدول ہیں اس لیے ان کی عدمِ معرفت (صحت حدیث کے حق میں ) مضّر نہیں ۔[4]
حضرات علماء نے حدیث مرسل کی بابت جو کچھ بھی کہا ہے ان سب کو اجمالاً ان تین اقوال میں سمویا جاسکتا ہے،
[1] کیوں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تابعی کسی دوسرے تابعی کے واسطے سے حدیث کو حاصل کرتا ہے جیسا کہ صحابہ میں بھی ایسا ہوتا رہا کہ وہ ایک دوسرے سے بھی احادیث کو سنتے اور روایت کرتے رہے‘‘(علوم الحدیث، ص: ۱۳۴ بتصرفٍ)
[2] مابین القوسین من علوم الحدیث، ص: ۱۳۵
[3] جب کہ صحابی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہر حال میں معتبر اور عادل ہوتا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۳۵)
[4] علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر دس اقوال نقل کئے ہیں ۔ جن کا خلاصہ اور ان میں اہم اقوال تین ہیں ۔ جو اوپر متن میں مذکور ہیں (علوم الحدیث، ص: ۱۳۵ بتصرفٍ )