کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 104
۲۔ حدیث مرسل
۱۔ مرسل کی تعریف:
الف: …لغوی تعریف: لفظ ’’مُرسَل‘‘ ’’اَرْسَلَ‘‘ سے اسمِ مفعول کا صیغہ ہے جس کا معنی ’’چھوڑا ہوا‘‘ ہے۔ گویا کہ ارسال کرنے والے نے اسناد کو چھوڑدیا اور اس کو کسی معروف راوی کے ساتھ مقید نہ کیا۔
ب: …اصطلاحی تعریف: اصطلاح محدثین میں ’’مرسل‘‘ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند کے آخر سے ’’تابعی‘‘ کے بعد کا راوی (یعنی سند سے صحابی رضی اللہ عنہ کا نام) ساقط ہو‘‘[1]
۲۔ اصطلاحی تعریف کی شرح:
یعنی وہ حدیث جس کی اسناد سے وہ راوی ساقط ہو جو تابعی کے بعد ہوتا ہے اور (بدیہی بات ہے کہ) وہ صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتا ہے۔اور (تعریف میں ) ’’آخر الاسناد‘‘ (کا لفظ آیا ہے) یہ اسناد کی اس طرف کو کہتے ہیں جس میں صحابی ہو۔‘‘
۳۔ ارسال کی صورت:
’’ارسال‘‘ کی صورت یہ ہے کہ تابعی خواہ (مرتبہ اور رتبہ میں ) چھوٹا ہو یا بڑا، یہ کہے ’’قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم کَذَا‘‘ یا ’’فَعَلَ کَذَا‘‘ یا ’’فُعِلَ بِحَضْرَتِہٖ کَذَا ‘‘ حضرات محدثین کے نزدیک ’’حدیث مرسَل‘‘ کی یہی صورت ہے۔
۴۔ حدیث مرسَل کی مثال:
اس کی مثال وہ حدیث ہے جو امام مسلم نے اپنی صحیح کی ’’کتاب البیوع‘‘ میں روایت کی ہے۔ جو یہ ہے:حدثنی محمد بن رافع، حدثنا حُجَین، حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شھاب، عن سعید ابن المسیّب انَّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی عن بیع المزابنۃ ‘‘
’’امام مسلم فرماتے ہیں ، ’’مجھے محمد بن رافع نے، وہ کہتے ہیں ہمیں حجین نے، وہ کہتے ہیں ہمیں لیث نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب زہری سے، انہوں نے (مشہور تابعی) حضرت سعید بن مسیّب رحمہ اللہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا۔‘‘[2]
[1] دیکھیں نزھۃ النظر ص۴۳ اور ’’تابعی‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی حالتِ اسلام میں کسی صحابی سے ملاقات ہوئی ہو اور پھر وہ شخص اسلام پر ہی فوت ہوا ہو ۔ (طحّان)
[2] ’’مسلم/کتاب البیوع باب تحریم بیع الرطب بالتمر الاَّا لعرایا۔ ۳/۱۱۶۸ حدیث رقم ۵۹۔ (طحّان)
’’بیعِ مزابنۃ: معلوم المقدار چیز کو اٹکل اور اندازہ والی چیز کے بدلے میں بیچنے کو ’’بیعِ مزابنہ‘‘ کہتے ہیں (القاموس الوحید، ص: ۶۹۷)
اور اس کی صورت یہ ہے کہ کھجور کے درخت پر جو پکی ہوئی کھجوریں ٹکی ہوئی ہوں ان کو خشک لٹکی ہوئی کھجوروں کے عوض (جن کی تول معلوم ہو) اندازہ کے ساتھ کیل کے لحاظ سے فروخت کیا جائے۔ بیع کی یہ قسم ناجائز ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے (معدن الحقائق: ۲/۳۴)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیع سے اس لیے منع فرمایا تھا کہ یہ دورِ جاہلیت کی خرید و فروخت کی رائج صورتوں میں سے ایک صورت تھی جو نامناسب تھی۔‘‘ (علوم الحدیث، ص: ۱۳۴ بتصرفٍ)