کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 103
۶۔ صحیحین کی تعلیقات کا حکم:
یہ حکم کہ ’’حدیث معلّق مردود ہوتی ہے‘‘ مطلق حدیث معلّق کے لیے ہے۔ لیکن اگر ’’حدیث معلّق‘‘ کسی ایسی کتاب میں پائی جائے جس میں حدیث کی صحت کا التزام کیا گیا ہو جیسے ’’صحیحین‘‘، تو ایسی معلّق حدیث کا حکم ’’خاص‘‘ ہے اور اس کا حکم گزشتہ میں ’’صحیح حدیث‘‘ کی بحث میں گزر چکا ہے۔ [1]
البتہ اس مقام پر اُس بحث کی دو باتوں کو یاد دلانے میں کوئی حرج نہیں ، جو یہ ہیں :
۱: وہ معلّق احادیث جن کو جزم اور یقین کے صیغہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے: جیسے ’’قَالَ‘‘ اور ’’ذَکَرَ‘‘ اور ’’حَکَی‘‘ (وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ ذکر کی جانے والی تعلیقات) کہ ان کا حکم ان اشخاص کے اعتبار سے صحت کا ہے جن کی طرف یہ منسوب ہیں ۔
۲: وہ معلّق احادیث جن کو ’’تمریض‘‘[2]کے صیغہ کے ساتھ ذکر گیا ہے: جیسے ’’قِیْل‘‘ ، ’’ذُکِرَ‘‘ اور ’’حُکِیَ‘‘ (وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ ذکر کی جانے والی تعلیقات) کہ ان کا حکم ان اشخاص کے اعتبار سے صحت کا نہیں جن کی طرف یہ منسوب ہیں بلکہ ایسی معلّق احادیث میں صحیح، حسن اور ضعیف ہر قسم کا احادیث ہیں البتہ صحیحین کی ایسی تعلیقات میں کوئی ’’واھی‘‘ حدیث نہیں ہے، کیوں کہ یہ سب تعلیقات ’’صحیح‘‘ نامی حدیث کی کتاب میں ہیں ۔[3]اور ’’معلّق احادیث‘‘ میں سے صحیح کو غیر صحیح سے پہچاننے اور اس پر اس کے مناسب حکم لگانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اس حدیث کی اسناد کے بارے میں تحقیق و جستجو کرنا[4] (کہ اس حدیث کی اسناد کی جستجو کرکے پھر اس پر حسبِ حال حکم لگایا جائے گا)۔
[1] اور وہ ’’صحیح حدیث‘‘ کی بحث میں عنوان نمبر ۱۱ میں مذکور ہے، جو یہ ہے، ’’شیخین رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ روایت کیا ہے، ان میں سے کس پر صحت کا حکم لگایا جاتا ہے‘‘؟(طحّان)
[2] ’’تمریض فی الکلام‘‘ کمزور اور نرم بات کرنا (القاموس الوحید، ص:۱۰۴۱) یعنی وہ صیغہ جو یقین اور قطعیّت پر دلالت نہ کرتا ہو بلکہ کمزوری اور شک و تردّد پر دلالت کرتا ہو، جیسے فعلِ مجہول کے صیغے۔
[3] علوم الحدیث لا بن الصلاح ص۲۴۔۲۵ (طحّان)
[4] حضرات محدثین اور علماء کرام نے بخاری شریف کی تعلیقات پر بہت تحقیق کی ہے اور ان کی متصل اسانید کو ذکر کیا ہے۔ اس باب میں سب سے عمدہ کتاب ’’تغلیق التعلیق‘‘ ہے جسے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے اور اس میں تعلیقاتِ بخاری کی متصل اسانید کو جمع کیا ہے۔ (طحّان)
اگرچہ تعلیقاتِ بخاری کے سلسلہ میں تحقیق و جمع کا کام دوسرے علماء نے بھی کیا ہے لیکن خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دوسرے مقامات پر اپنی معلّقات کو موصولاً یعنی متصل اسانید کے ساتھ ذکر کردیا ہے۔ لیکن پھر بھی ۱۶۰احادیث موصولاً ذکر ہونے سے رہ گئی ہیں ۔ ان معلقات کی اسناد کے ذکر و جمع کے سلسلہ میں سب سے عمدہ کا کام حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے۔ جن کی علی الترتیب اس موضوع پر تین تالیفات ہیں :
(۱) ’’التوفیق‘‘ جن میں بخاری کی تعلیقات کو مع سند ذکر کیا ہے۔
(۲) تغلیق التعلیق: جس میں معلقاتِ بخاری کے علاوہ بخاری کی ذکر کردہ موقوف روایات کو بھی مع اسناد ذکر کیا گیا ہے۔
(۳) التشویق الی وصل المھم من التعلیق۔ یہ دوسری دو کتابوں کا اختصار ہے جس میں اسناد کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ (علوم الحدیث، ص: ۱۳۲۔۱۳۳ بتصرفٍ و زیادۃٍ بحوالہ تدریب الراوی، ص: ۱۱۷ تا ۱۲۱)